اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قباء دیکھ
بی جے پی حکمرانی والی ریاستیں
وزیراعظم نریندر مودی نے بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے چیف منسٹروں اور پارٹی قائدین سے خطاب کرتے ہوئے موافق غریب اسکیمات پر عمل آوری کے لئے زور دیا ہے اور وہ یہ بھول گئے کہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں جن کے عہدہ کے تحت ملک کی تمام ریاستیں آتی ہیں۔ فلاحی و ترقیاتی اسکیمات کے بارے میں بی جے پی یا غیربی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں فرق پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اپنی پارٹی کے چیف منسٹروں کے لئے انہوں نے ایک ضابطہ پیش کیا ہے۔ آدھار سے مربوط مرکزی اسکیمات کے لئے مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔ اسکیمات کے بارے میں دیگر غیربی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کی شکایات کو نظرانداز کرکے وزیراعظم مودی اپنی پارٹی کی حکومتوں کے لئے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر ان پر اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے تنقیدیں ہوں گی۔ ان کی تقاریر کے تعلق سے اب یہی منکشف ہورہا ہے کہ وہ اپنی تقریر کو 2 گھنٹے طول تو دے سکتے ہیں مگر اس تقریر میں سوائے امریکہ اور اپنے بیرونی دوروں کے تعلق سے اظہار خیال کرنے کے کچھ نیا نہیں ہوتا۔ وہ اپنی دو سالہ حکمرانی کے بارے میں اظہار خیال سے گریز کرتے ہیں اور کانگریس کی 60 سالہ حکمرانی والے دور کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر کانگریس نے ان 60 برسوں میں کیا کیا ہے۔ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے اسکامس کے بارے میں مودی خاموش ہیں جبکہ مدھیہ پردیش میں ویاپم اسکام کے اہم گواہوں کو راستے سے ہٹا دیا گیا پھر بھی اس سفاکانہ قتل کی کوئی قانونی کارروائی کا حتمی نتیجہ برآمد نہیں کیا گیا۔ بلاشبہ مودی نے اچھی پالیسیاں بنائی ہیں مگر ان پر عمل آوری اور عوام تک فوائد پہونچنے کا جہاں تک سوال ہے، اس سے کتنے شہریوں نے استفادہ کیا ہے اور آدھار سے مربوط اسکیمات کو موثر طور پر روبہ عمل لانے کا ڈاٹا کب پیش کیا جائے گا، یہ واضح نہیں کیا گیا۔ سیاسی پارٹی کو عوام کی تائید اس کی کارکردگی کے عوض ملتی ہے مگر یہاں بی جے پی کو شخصیت پرستی کے عوض سیاسی قوت حاصل ہوئی ہے تو پارٹی کے چیف منسٹروں کو مرکز کی پالیسیاں روبہ عمل لانے یا نہ لانے فکر لاحق نہیں ہوگی پھر بھی وزیراعظم نے بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے چیف منسٹروں کو مخاطب کیا ہے اور ان سے امید باندھی ہے کہ آنے والے دنوں میں بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرکے ماباقی ملک میں مثالی ریاستیں ہونے کی کوشش کریں۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملک کی 51% جغرافیائی حدود پر حکمرانی حاصل کرلی ہے اور اس علاقہ میں تقریباً 37% آبادی ہے لہٰذا مودی حکومت کی موافق غریب پالیسیوں کو کامیاب بنانے میں پارٹی اہم رول ادا کرسکتی ہے۔ اگر واقعی بی جے پی اور اس کی حکمرانی والی ریاستوں کے چیف منسٹر موافق غریب پالیسیوں کو روبہ عمل لانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ خوش آئند بات ہوگی۔ سیاسی کارکردگی کا مظاہرہ ہی انتخابات میں کامیابی کا ضامن ہوتا ہے، لیکن شکایت یہ ہے کہ مودی نے اپنی ہی ریاست گجرات میں 2012ء کے اسمبلی انتخابات کے موقع پر کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا۔ غریبوں اور متوسط طبقہ کے لوگوں کے لئے پانچ سال میں 50 لاکھ مکانات تعمیر کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اب تک اس وعدہ کے مطابق 20% کام بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ گجرات کانگریس نے یہ سوال اٹھایا کہ بی جے پی حکومت نے گزشتہ چار سال کے دوران اپنے انتخابی وعدوں کو پورا نہیں کیا ہے۔ سلم علاقوں سے پاک ریاست گجرات بنانے کا بھی وعدہ جوں کا توں ہے۔ ریاست میں جب یہی صورتحال ہے تو ماباقی بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کی تصویر بھی مختلف نہیں ہوگی۔ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں مرکزی اسکیمات پر موثر عمل آوری سے معیشت میں بہتری آتی ہے تو ملک بھر کے معاشرے میں بھی آسودگی نمایاں دکھائی دینی چاہئے۔ بی جے پی کے لوگوں کو اس وقت اپنے لیڈر مودی کی قیادت کو مقناطیسی اور بصیرت افروز ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف دیکھا جارہا ہے تو اپنی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی جب نوبت آئے گی تو اس وقت حقیقت بھی آشکار ہوگی۔