مرکزی حکمراں پارٹی بی جے پی آہستہ آہستہ مسافر کارواں سے در کارواں بنتی جارہی ہے۔ 2019 ء کے عام انتخابات سے قبل اسے اپنے سامنے کئی سوالات و استفسارات خوفناک لہریں اُٹھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس لئے جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سے اتحاد واپس لیا ہے۔ کشمیر کی صورتحال اس کا تعاقب کرتے رہے گی۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے محبوبہ مفتی کا استعفیٰ اور صدر راج کے نفاذ کے امکانی حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کو سیاسی اتحاد کی تلخ روداد کا علم ہوچکا ہے اور پی ڈی پی اقتدار کی گدی پر بیٹھ کر اب تک بی جے پی کو اپنا سمجھ کر غفلت کا شکار ہوئی تھی۔ جنوری 2016 ء میں محبوبہ مفتی کے والد اور سابق چیف منسٹر مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد یہ یقین ہوچکا تھا کہ پی ڈی پی اور بی جے پی میں اتحاد ہرگز نہیں ہوگا لیکن محبوبہ مفتی سے بی جے پی صدر امیت شاہ کی ایک ملاقات پر اپریل 2016 ء کو پی ڈی پی ۔ بی جے پی اتحاد کا اعلان ہوا تو پی ڈی پی کو اس اتحاد کا خمیازہ بھگتنے کی گھڑی کا بھی آغاز ہوا۔ جنوبی کشمیر میں جہاں پی ڈی پی کا مضبوط گڑھ ہے، عوام خاص کر پی ڈی پی حامی ووٹرس کو بی جے پی سے محبوبہ مفتی کا اتحاد صدمہ خیز تھا تاہم اپنی ناراضگی کے باوجود پارٹی کیڈر حکومت کا ساتھ دیتا رہا ہے۔ ایک طرف پی ڈی پی کو بی جے پی سے اتحاد کا نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ دوسری طرف بی جے پی کو جموں کیڈر کی ناراضگیوں کا شکار ہونا پڑے گا۔ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہونے کے باوجود آرٹیکل 370 پر کوئی قدم نہ اُٹھائے جانے کی شکایت کے ساتھ بی جے پی کا کیڈر پارٹی قیادت سے ناراض ہے۔ اس کے علاوہ رمضان المبارک کے دوران جنگ بندی کا اعلان کرکے مرکزی حکومت نے وادی کشمیر کے تعلق سے اپنی پالیسی کو نرم کرتے ہوئے پارٹی نے اپنے رائے دہندوں اور اتحادی پارٹی کو ناراض کیا تھا۔ بی جے پی کارکنوں کا احساس ہے کہ وادی میں دہشت گردی، تشدد اور انقلابی سرگرمیوں پر قابو پانے میں ریاستی و مرکزی حکومت ناکام رہی ہے۔ بی جے پی کو پارٹی کارکنوں اور وادیٔ کشمیر خاص کر جموں خطہ کے عوام کی ناراضگیوں کا اندازہ ہونے کے بعد پی ڈی پی حکومت کا ساتھ چھوڑ دینے میں ہی اپنی سیاسی عافیت دکھائی دی ہے۔ 87 رکنی جموں و کشمیر اسمبلی میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں تھی۔ تاہم پی ڈی پی 28 ، بی جے پی 25 ارکان کے ساتھ حکومت سازی کے لئے اتحاد کرلیا۔ نیشنل کانفرنس 15 اور کانگریس 12 کے علاوہ دیگر 7 ارکان ہیں۔ بی جے پی نے اس اتحاد کو توڑنے کی وجہ یہ بتاتی ہے کہ ریاست میں محبوبہ مفتی حکومت اپنے وعدوں کی تکمیل میں ناکام ہوچکی ہے۔ جموں اور لداخ میں ترقیاتی کاموں کی انجام دہی کے لئے بی جے پی کے قائدین کو اس حکومت سے مشکلات کا سامنا ہے۔ حالیہ مہینوں میں دونوں اتحادی پارٹیوں کے درمیان لفظی جنگ بھی چھڑ گئی تھی۔ دو پارٹیوں کے اس غیر فطری اتحاد کا انجام یہی ہونا تھا۔ شائد بی جے پی نے شعور اتحاد کی تکمیل کرلی ہے اس لئے پی ڈی پی کا ساتھ اس کی بقاء کو خطرہ پہونچا سکتا ہے۔ سیاست میں ہمیشہ یہ موڑ آتا ہے کہ پرچھائیاں بھی ساتھ نہیں دیتی۔ وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال کے لئے دونوں حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ وادی میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے ہی اتحادی پارٹیوں میں اختلافات پیدا ہونا شروع ہوئے تھے۔ وادی کے حالات کے تعلق سے مرکزی حکمراں پارٹی کی حیثیت سے بی جے پی نے جو موقف اختیار کرلیا تھا وہ ریاستی حکمراں پارٹی پی ڈی پی کے لئے سیاسی نقصانات کا موجب بن رہا ہے۔ کٹھوا عصمت ریزی اور قتل کیس سے وادی کشمیر کی نازک ہولناک صورتحال کو آشکار کردیا۔ ان خرابیوں کی سیاہی سے اپنا چہرہ محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بی جے پی نے اتحاد توڑ دیا ہے لیکن وہ جس راہ سے گذر کر آئی ہے وہ رسوا کن ہے۔