’سیاست ‘کی اطلاع پر جلال الدین اکبر کا مقام واقعہ کا معائنہ، پولیس میں مقدمہ درج، پولیس پکٹ تعینات
حیدرآباد ۔ 27 ستمبر (ابوایمل) ایسا لگتا ہے کہ موقوفہ جائیدادوں سے غفلت برتنا اور پھر ان کی حفاظت کے حوالے سے روایتی بیانات جاری کردینا وقف بورڈ عہدیداروں کی ایک روایت سی بن گئی ہے۔ حیدرآباد و سکندرآباد میں آج بھی سونے سے زیادہ قیمتی موقوفہ اراضیات موجود ہیں جس پر لالچی لینڈ گرابرس کی نظر پڑتے ہی اس کو ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان اراضیات پر ایک عالیشان عمارت کھڑی کردی جاتی ہے، پھر اس پر کسی ہوٹل یا دفتر کا بورڈ آویزاں کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وقف بورڈمجرمانہ غفلت کی نیند سے بیدار ہوکر بڑبڑانے لگتے ہیں کہ ہم نے اس قبضہ کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی ہے اور مقدمہ دائر کیا ہے۔ اگر ان روایتی جملوں اور کاموں سے مسلم قوم کا کوئی بھلا نہیں ہوپاتا۔آج ہم آپ کو ایک بار پھر یاد دلادیں کہ 18نومبر2010 کو وقف بورڈ کو بیگم پیٹ ٹاسک فورس کی عمارت کا تقریباً 70سال بعد قبضہ حاصل ہوا۔ مگر تقریباً 4سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود اس قیمتی اراضی پر وقف بورڈ کی جانب سے یہاں کوئی تعمیری سرگرمیاں شروع نہیں کی گئی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقفہ وقفہ سے لینڈ گرابرس اس اراضی کو ہڑپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں آج کئی افراد کو اس اراضی پر دیکھا گیا ان سے بات کرنا چاہا تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ اوقافی جائیداد نہیں ہے، اور پھر اُلٹا مختلف قسم کے سوال کرنے لگے۔جس کے بعد فوراً اسپیشل آفیسر وقف بورڈ جلال الدین اکبر کے ساتھ ایم اے حمید سی ای او وقف بورڈ، عظمت اللہ خاں اسپیشل پروٹیکشنآفیسر نے فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے فوری ایک ٹاسک فورس ٹیم کو مذکورہ مقام پر روانہ کیا جس نے صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد پتہ چلا کہ ٹاسک فورس آفس کی عمارت کو لینڈ گرابرس نے منہدم کردیا ہے جس کے بعدپنجہ گٹہ پولیس اسٹیشن میں مولا علی علاقہ سے تعلق رکھنے والے قمر حسن رضوی کے خلاف شکایت درج کرائی جہاں قمر حسن رضوی کے خلاف کیس بک کرلیا گیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد اسپیشل آفیسر وقف بورڈ محمد جلال الدین اکبر نے بیگم پیٹ میں واقع اس قیمتی اراضی کا معائنہ کیا۔ اس سلسلہ میں کمشنر آف پولیس سے بات کرکے اس اراضی پر پولیس پکیٹ کو تعینات کردیا گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس اراضی پر وقف بورڈ کی جانب سے یہاں گیٹ پر بورڈ بھی آویزاں کیا گیا تھا جس پر تحریر تھا کہ ’’ یہ وقف اراضی ہے اور اس کا ایم سی ایچ نمبر 6-3-1191ہے۔‘‘ مگر کچھ دنوں کیلئے اس تحریر کو بھی پینٹ کرتے ہوئے مٹادیا گیا تھا۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں وقف بورڈ کی جانب سے ایک سیکورٹی گارڈ بھی رکھا گیا تھا مگر کافی عرصہ سے یہاں سیکورٹی گارڈ بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ اس طرح بورڈ مٹادینا اور پھر وقف بورڈ سیکورٹی گارڈ کو ہٹادیا جانا کئی شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ وقف بورڈ کو ان باتوں کا علم ہی نہیں ہے۔ لب سڑک اس قیمتی اراضی کا رقبہ فی الحال 1100 گز ہے جہاں 18جنوری 2014 کو اس وقت کے اوقافی جائیدادوں کے ریاستی وزیر محمد احمد اللہ، اسپیشل آفیسر وقف بورڈ ایس ایم اقبال، سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود عمر جلیل اور دیگر عہدیداروں نے اس مقام کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہاں بہت جلد کمرشیل عمارت تعمیر کردی جائے گی۔ مگر اس قدر طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا۔ سوال یہ ہے کہ آخر وقف بورڈ اس قدر قیمتی اراضیات کے حوالے سے مجرمانہ غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کیوں کرتا ہے؟۔ کیا اسے اپنی آمدنی میں اضافہ کی کوئی فکر نہیں؟ یا پھر وہ جان بوجھ کر موقوفہ اراضیات لینڈ گرابرس کیلئے چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ ففٹی ففٹی کھیل لیں۔ جناب زاہد علی خاں ایڈیٹر روز نامہ ’سیاست‘ کی ہدایت پرمسرز عثمان بن محمد الہاجری، ایم اے باسط سابقہ کارپوریٹردودھ باؤلی، ایم اے خلیل، عبداللہ بن عثمان الہاجری وقف پروٹیکشن سوسائٹی کی ٹیم بھی اس مقام پر فوری پہنچ گئی۔ روز نامہ ’سیاست‘ ہمیشہ موقوفہ جائیدادوں کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتا رہا ہے۔یہ وقف بورڈ کا کام ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے۔