حیدرآباد ۔ 3 اکٹوبر (محمد ریاض احمد) یہ حقیقت ہیکہ غربت انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ غربت دراصل ایک ایسی سماجی و معاشرتی بیماری ہے جس میں اگر کوئی مبتلاء ہوجائے تو اسکی اور اس کے اہل و عیال کی زندگیاں اجیرن ہوجاتی ہیں۔ محنت کے ذریعہ ہی غربت کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ایسے ہزاروں تارکین وطن ہیں جو اپنی غربت دور کرنے کی خاطر وہاں سخت محنت کررہے ہیں اپنی اور اپنے ارکان خاندان کی زندگی خوشحال بنانے کیلئے وہ خون پسینہ ایک کردیتے ہیں۔ خاص طور پر اولاد کی تعلیم اور لڑکیوں کی شادیوں کی خاطر کئی تارکین وطن ان ملکوں میں اپنی زندگیوں کا ایک بڑا حصہ گذار دیتے ہیں۔ اس دوران انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ عمر کے اس حصہ میں پہنچ چکے ہیں جہاں سے صرف آگے کا ہی راستہ دکھائی دیتا ہے اور وہ راستہ سیدھے موت کی ویران وادی میں جاکر رک جاتا ہے۔ ہندوستان میں لڑکیوں کی شادیاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ حال ہی میں مملکت قطر میں کیرالا سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے 67 سالہ شخص کا حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوگیا جو اپنی پانچ جوان بیٹیوں کی شادیوں کیلئے زائد از 14 برسوں سے اپنے بیوی بچوں کے چہرے نہ دیکھ سکا۔ وہ اس طویل عرصہ کے دوران مختلف کام کرتا رہا تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے جمع کرکے ملک بھیجے۔ ایک فیکٹری میں چوکیدار کی حیثیت سے کام کرنے والے عبدالقادر میراں نے سخت محنت کرتے ہوئے پانچ بیٹیوں کی شادیاں کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ حال ہی میں ان کی چھوٹی بیٹی کی شادی ہوئی تھی لیکن کمزور مالی موقف کے باعث وہ اپنی لخت جگر کی شادی میں شرکت نہ کرسکا اور پھر ایک اچھی زندگی کا خواب سجایا۔ یہ شخص قطر میں عیدالاضحی سے ایک دن قبل ہی انتقال کر گیا۔ میراں کے دوستوں کا کہنا ہیکہ 5 بچیوں کی شادی کی ذمہ داریوں سے سبکدوشی پر وہ کافی خوش تھا اور بہت جلد اپنے گھر واپسی کا منصوبہ بنارہا تھا لیکن موت نے ایک غریب و مفلس شخص، بے بس باپ اور پریشان حال شوہر کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ عبدالقادر میراں چاہتے ہوئے بھی اپنے گھر نہ جاسکا تھا۔ اسے ہمیشہ یہی خوف لگا رہتا کہ اگر وہ ملک واپس ہوجائے گا تو اپنی جوان بیٹیوں کی شادیاں کیسے کرے گا۔ جہیز کا بندوبست کیسے کرے گا اور گھوڑے جوڑے کی رقم کہاں سے لائے گا؟ اس خوف کے باعث ہی اس نے گذشتہ 14 برسوں سے خود کو اپنے اہل و عیال سے دور رکھا ہوا تھا۔ میراں کی مجبوری اور اس کی غربت کو دیکھتے ہوئے اس کے قطری کفیل نے اسے باہر کام کرنے کی اجازت دے دی تھی جس کے باعث اسے کچھ راحت مل گئی تھی۔ بہرحال یہ تو کیرالا کے رہنے والے عبدالقادر میراں کی دردناک کہانی تھی لیکن خود ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں ایسے بے شمار عبدالقادر میراں ہیں جن کے گھروں میں ہزاروں نوجوان لڑکیاں شادیوں کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ مائیں راتوں میں چھپ چھپ کر آنسو بہاتی ہیں اوران کے باپ بیرونی ممالک میں اس امید سے اپنی زندگیوں کو جوکھم میں ڈال رہے ہیں کہ شاید کچھ رقم جمع ہوجائے تو اپنی بچیوں کی شادیاں دھوم دھام سے کریں گے حالانکہ ہمارے دین اسلام میں شادیوں کو آسان اور زنا کو مشکل بنانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اگر آج ہمارے معاشرہ میں جہیز کی لعنت اور گھوڑے جوڑے کی برائی کا خاتمہ ہوجائے تو کسی باپ کو اپنا گھر چھوڑ کر پردیس جانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور کوئی بھائی اپنی بہنوں کی شادیوں کیلئے سمندر پار ملازمت کیلئے مجبور نہیں ہوگا۔ جہاں تک بیرون ملک ملازمت کرنے والے حیدرآبادی افراد کا سوال ہے ان میں کئی ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں خاص طور پر لڑکوں کو اچھے سے اچھے اسکول و کالجس میں تعلیم دلانے کی خاطر ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کررہے ہیں لیکن ان کی اولاد یہاں اس کمائی کو بڑی بیدردی سے خرچ کرتی ہے۔ انہیںاحساس ہی نہیں کہ ان کے باپ اپنوں سے دور رہ کر صرف اور صرف انہیں اچھے انسان بنانے کیلئے سب کچھ برداشت کررہے ہیں۔