بینک اسکامس ۔ آر بی آئی کا اعتراف

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
بینک اسکامس ۔ آر بی آئی کا اعتراف
ہندوستان میں خاندانی حکمرانی بمقابلہ فرد واحد کی حکمرانی کی بحث طول پکڑتے جارہی ہے اور اس بحث کے اصل کردار خود فرد واحد کی حیثیت سے نمایاں ہونے والے نریندر مودی ہیں ۔ کانگریس کی خاندانی حکمرانی کو نشانہ بنانے والے مودی نے صدر کانگریس راہول گاندھی کے خلاف اپنا محاذ مضبوط تو کیا تھا مگر اب راہول گاندھی نے مودی کی فرد واحد کی حکمرانی کا تعاقب شروع کر کے آنے والے دنوں میں مودی کے امکانات پر ضرب لگانے کے لیے کمر کس لی ہے ۔ ایسے میں ریزرو بینک آف انڈیا نے یہ اعتراف کیا ہے کہ یو پی اے دوم حکومت کے دوران اس ملک کے بینکوں کے قرضوں میں جس قدر دھوکہ دہی ہوئی تھی ، اس سے کئی گنا دھوکہ دہی مودی حکومت کے ان چار برسوں میں ہوئی ہے ۔ یو پی اے حکومت دوم 2009-10 میں بینکوں کے قرضوں میں دھوکہ دہی 1,002 کروڑ تھی جب کہ مودی کے چار سالہ دور میں 2018 میں بینکوں کو 20,000 کروڑ روپئے کا دھوکہ دیا گیا ہے ۔ یہ ایک ایسی مالیاتی غبن سے متعلق تلخ سچائی ہے جس سے مرکز کی مودی حکومت انکار نہیں کرسکے گی مگر سیاستدانوں کو اپنا چہرہ ایک وقت تک چھپانے کا موقع ملتا ہے لیکن جب چہرہ بہت زیادہ بھیانک ہوجائے تو آئینہ خود بخود چکنا چور ہوجاتا ہے ۔ بینکوں میں ہونے والے قرضہ دھوکہ دہی اسکیمات پر وزیراعظم مودی کی خاموشی کو نشانہ بنانے والی اپوزیشن پارٹیوں نے جب عوام کے سامنے سچائی بیان کرنی شروع کی ہے تو مرکز کی مودی حکومت کی ساکھ کمزور ہوتے دکھائی دینے لگی ۔ ہندوستانی بینکنگ نظام اتنا کمزور اور احمق لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن جب اس نظام پر سیاستدانوں خاص کر حکومت کے ذمہ داروں کا سایہ پڑ جاتا ہے تو اس کی کارکردگی دھاندلیوں کی نذر ہوجاتی ہے ۔ اگر بینکوں میں دھوکہ دہی کی شکایت کی جاتی ہے تو یہ سراسر غیر ذمہ دارانہ عمل ہے کیوں کہ بنکنگ نظام میں دھوکہ دینے کا سوال کم پیدا ہوتا ہے ۔ یہاں کئی محفوظ طریقے کار ہوتے ہیں ۔ داخلی اور خارجی آڈیٹس ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ ہر زاویہ سے بنکوں کے لین دین پر نظر رکھی جاتی ہے ۔ ان تمام حقائق کے باوجود دھوکہ دہی کا معاملہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو اس میں بدعنوانی کا پہلو ہی شامل ہوتا ہے ۔ ریزرو بینک آف انڈیا ہمارے ملک کا سب سے شفاف اور معتبر ادارہ مانا جاتا ہے ۔ ہندوستانی بینکوں کی کارکردگی کو باقاعدہ بنائے رکھنے کے لیے اس کے اصولی شرائط کا اطلاق عمل میں آتا ہے ۔ لیکن جب عالمی سطح پر کہیں کوئی دھوکہ دہی کا معاملہ پیش آتا ہے تو اس خطوط پر ہندوستان میں بھی دھوکہ دہی کا عمل کر گذرنے کی مشق کی جاتی ہے جس میں کامیاب ہونے کے لیے سیاسی سہارا لیا جانا بھی اس عمل کا حصہ ہوتا ہے ۔ 2008 میں امریکہ کے بعض بینکوں میں دیوالیہ کا اعلان ہوا تو حکومت کی جانب سے راحت دی گئی لیکن ہندوستانی بینکوں کی صورتحال اور معاملت مختلف ہیں اس کے در و دیوار اتنے مضبوط ہیں کہ اس میں کہیں بھی شگاف پڑنے نہیں دیا جاتا ۔ یہاں کے بینکوں کا اسکام ناقص انتظامات کی وجہ سے نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہاں دانستہ طور پر بدعنوانیوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے کیوں کہ انسانوں میں حرص و لالچ پائی جاتی ہے اور جب سیاسی چھاؤں مل جاتی ہے تو پھر بینکوں سے پیسہ غائب ہوجاتا ہے ۔ وجئے مالیا کو ہندوستانی سرحد سے روانہ کرنے کے لیے سرخ قالین بچھادیا گیا ۔ اسی طرح نیرو مودی کو بھی جنوری 2018 میں ہندوستانی ایمیگریشن کاونٹرس کے ذریعہ آسانی سے بیرون ملک روانہ ہونے دیا گیا ۔ نیرو مودی کو ڈاؤس میں وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ دیکھا گیا ۔ نیرو مودی کے ماموں میہول چوکسی نے سال 2015 اور 2016 میں وزیراعظم کے دفتر کو اطلاع دی تھی کہ بینکوں میں کچھ نہیں ہوا ہے جب کہ اس مدت کے دوران ہندوستان کے بینکوں کو اسکامس کا کھلا میدان بناکر رکھ دیا گیا تھا ۔ ان دھاندلیوں کے باوجود مودی کی زبان پر وہی رٹ برقرار رہے کہ کالے دھن کو واپس لائیں گے اور اچھے دن آگئے ہیں۔۔