بینکوں کو غیرکارکرد اثاثوں کا جلد پتہ چلانا ضروری

مختلف بینکوں کے ناقص قرضے 9.64 لاکھ کروڑ روپئے :پارلیمانی پیانل
نئی دہلی ، 4 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) بینکنگ سسٹم میں ناقص قرضوں کی اونچی سطح پر فکرمند ایک پارلیمانی پیانل نے پی ایس یو بینکوں سے کہا ہے کہ کوئی میکانزم وضع کریں جو پریشانی والے اثاثوں کا جلد پتہ چلائیں تاکہ عاجلانہ اصلاحی اقدامات کئے جاسکیں۔ پارلیمنٹری پیانل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ کمیٹی پی ایس بیز (پبلک سیکٹر بینکس) کے انتظامیہ کو متنبہ کرنا چاہتی ہے کہ قرضوں کی منظوری میں پیشہ واریت لائیں اور تمام درکار وسائل کو بروئے کار لائیں تاکہ اُن کے دیئے گئے قرضوں پر دباؤ کی کیفیت کا جلد پتہ جائے تو فوری اصلاحی اقدامات کئے جاسکیں۔ عوامی شعبہ کی بینکوں کے مجموعی این پی ایز (غیرکارکرد اثاثہ جات) بڑھ کر 31 ڈسمبر 2016ء تک 6,06,911 کروڑ روپئے ہوگئے جبکہ شیڈولڈ کمرشیل بینکوں کے جملہ پریشان کن اثاثہ جات (مجموعی غیرکارکرد اثاثہ جات اور ازسرنو طے شدہ معیاری قرضہ جات) 9.64 لاکھ کروڑ روپئے ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ ختم ستمبر تک بینکوں کے جملہ ناقص قرضے 8,97,000 کروڑ روپئے رہے۔ پیانل نے وزارت فینانس سے کہا کہ بینکنگ قوانین بشومل ایس بی آئی ایکٹ میں ترمیم لائیں تاکہ بینکوں کی جانب سے قرض نادہندگان کے ناموں کا افشاء کرنے کی گنجائش فراہم ہوجائے جس سے بڑھتے ہوئے غیرکارکرد اثاثہ جات کی مصیبت سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا ایکٹ 1955ء کا سیکشن 44 اور متعلقہ قوانین میں رازداری برتنے کے بعض دیگر فقرہ جات بھی ایسے افراد کے ناموں کا انکشاف کرنے سے ہمیشہ منع کرتے ہیں جو بینکوں کو رقم باقی ہوں یا اُن کی واپس ادائیگی میں ناکامی کے سبب خراب قرضوں کیلئے ذمہ دار ہوں۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق قرض نادہندگان کے ناموں کا بہرحال ریزرو بینک آف انڈیا اور کریڈٹ انفارمیشن بیورو لمیٹیڈ (CIBIL) کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔