کوئی لاعلاج مرض لاحق ہونے کی صورت میں مریض بسا اوقات انتہائی بے صبرا اوراللہ کی رحمت سے ناامید ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شیطان کی کارستانی ہے کہ انسان کو ماضی میں کئے ہوئے گناہ اس قدر یاد دلاتا ہے کہ وہ ناامیدی کو گلے لگا لیتا ہے ، حالاں کہ اگر وہ نمازوں کی پابندی کرتا رہے ، بقیہ تمام فرائض ادا کرتا رہے اور صدق دل سے توبہ کرے اور شرک سے اپنے آپ کو بچائے تو اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ اللہ اس کے ساتھ رحم والا معاملہ فرمائیں گے او راسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔ چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: ’’میری امّت میں سے جو بھی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! اگرچہ زنا کرے یا چوری کرے تب بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگرچہ زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔‘‘
اور صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی مرے اسے چاہیے کہ وہ اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو ‘‘۔اور حدیث قدسی ہے کہ ’’ میں اپنے بندے سے اس کے گمان جیسا معاملہ کرتا ہوں پس جیسا چاہے وہ مجھ سے گمان رکھے‘‘ ۔ اورایک مومن او رمسلمان بندے کو چاہیے کہ وہ تکالیف پر صبر کرے ، چاہے وہ کتنی ہی سخت ہوں۔ کیوں کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں تنگی اور پریشانی کے بعد راحت کا وعدہ فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس تشریف لائے او روہ موت کے بہت قریب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہو؟ تو اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ کی رحمت کی امید کرتا ہوں اوراپنے گناہوں سے خوف کھاتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی شخص جس کے دل میں یہ دو باتیں جمع ہو جائیں تو اللہ پاک اس کی امید کو پورا فرماتے ہیں اور اس کو خوف سے بخشتے ہیں‘‘۔
لہٰذا اس حدیث کی رو سے اللہ کی ذات پر یقین رکھنا چاہیے او راس کے فیصلے پر راضی ہونا چاہیے ، کیا پتہ موت کس وقت آجائے تو اگر صبر وشکر کیا اور اللہ پاک نے شفا دے دی تو صبر وشکر کا ثواب ملے گا او راگر فانی دنیا سے رحلت ہو گئی تو اللہ کی رحمت متوجہ ہو گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ مومن کا تحفہ موت ہے۔‘‘ (طبرانی)
یہ تو بات ہو گئی بیماری پر صبر کی اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونے کی، اب میں آپ حضرات کی خدمت میں بیماری کے روحانی فوائد اور اس کی حکمتیں پیش کرتا ہوں، لیکن اس سے پہلے ایک تمہیدی بات عرض کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر چیز میں نعمت کا عنصر ضرور پایا جاتا ہے، یہ بات الگ ہے کہ بسا اوقات نعمت کا یہ عنصر خود اس شخص پر اثر انداز ہوتا ہے اورکبھی کسی دوسرے کے لئے کار فرما ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا کفار کو درد ناک عذاب دینا بھی نعمت ہے، لیکن ظاہر ہے کہ کفار نہیں بلکہ باسیان جنت کے حق میں یہ نعمت ہے۔ کیوں کہ اگر اللہ تعالیٰ عذاب کو پیدا نہ فرماتے تو جنت کے مزے لوٹنے والے جنتی ان نعمتوں، سہولتوں او رراحتوں کا ادراک نہ کر پاتے جو ان کو حاصل ہیں، عربی کا ایک مشہور قاعدہ ہے کہ کسی بھی چیز کی معرفت اس کی ضد سے ہوا کرتی ہے۔