نئی دہلی 20 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں ’’بیجا خوداعتمادی‘‘ کی وجہ سے نقصان اُٹھانے کا امکان ہے۔ جیسا کہ 2004 ء میں ’’انڈیا شائننگ‘‘ کا نعرہ دے کر انتخابی نقصانات اُٹھا چکی ہے۔ بی جے پی کی موجودہ انتخابی مہم بھی 2004 ء کے خطوط پر ہی چلائی جارہی ہے۔ این سی پی کے سربراہ و مرکزی وزیر زراعت شردپوار نے جو کانگریس زیرقیادت یو پی اے کے ایک نمایاں قائد ہیں، کہاکہ اُن کے خیال میں بی جے پی اعلیٰ سطحی انتخابی مہم کے باوجود سادہ اکثریت کے قریب بھی نہیں پہونچ سکے گی۔ اُنھوں نے تجویز پیش کی کہ کانگریس کو ایک ایسے وقت مودی زیرقیادت بی جے پی عوام تک ربط پیدا کرنے کے لئے جدوجہد میں مصروف ہے، زیادہ سرگرم ہوجانا چاہئے۔ اُنھوں نے کہاکہ کانگریس یو پی اے کی کلیدی پارٹی ہے۔ اُنھوں نے یہ تبصرہ اُس وقت کیا جب اُن سے سوال کیا گیا تھا کہ یو پی اے اہم اپوزیشن پارٹی اور اِس کے قائد کے انتخابی چیالنج کا سامنا کیسے کرے گی۔ اُنھوں نے کہاکہ اُنھیں صرف استحکام کی فکر ہے۔ اُن سے سوال کیا گیا تھا کہ مابعد انتخابات سیاسی منظر نامہ 1996 ء کے انتخابات کے بعد کے سیاسی منظر نامے کے مماثل تو نہیں ہوگا جبکہ بی جے پی واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری تھی لیکن اِس کی حکومت صرف 13 دن قائم رہ سکی۔ مودی لہر کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے پوار نے کہاکہ اُن کے خیال میں یہ ’’ایک ہی شخص کی مہم‘‘ ہے اور وہ اہم اپوزیشن پارٹی کی تائید میں ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ لیکن اُنھیں اندیشہ ہے کہ اُن کی یہ کامیابی بیجا خود اعتمادی کی وجہ سے مسخ ہوسکتی ہے۔ اُنھوں نے 2004 ء کے حوالہ سے کہاکہ بی جے پی کو قدآور شخصیت جیسے اٹل بہاری واجپائی کی قیادت کے باوجود ناکامی ہوئی تھی۔ بی جے پی اپنے اچھے احساس اور انڈیا شائننگ کے نعرے کا خود ہی شکار ہوگئی تھی۔ وہ منموہن سنگھ کو بحیثیت وزیراعظم دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ معلق انتخابی نتائج کی صورت میں وزارت عظمیٰ کے لئے اُن کے انتخاب کی قیاس آرائیوں کے بارے میں شردپوار نے کہاکہ پارٹی 513 رکنی لوک سبھا میں جملہ 21 نشستوں پر جن میں سے 21 نشستیں مہاراشٹرا کی ہیں، مقابلہ کررہی ہے۔ یہ نامعقول سیاست ہوگی کہ میں چاند کو پانے کی خواہش کروں جبکہ میری طاقت انتہائی محدود ہے۔
اُنھوں نے اِن سوالات کا جواب دینے سے صاف انکار کردیا کہ مودی وزیراعظم کیسے بنیں گے؟ اُنھوں نے کہاکہ ابھی افراد کے بارے میں بات کرنا نامناسب ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ وہ مودی سے دیرینہ واقفیت رکھتے ہیں اور اُنھیں یقین نہیں ہے کہ کیا اُن میں وزیراعظم بننے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اُنھوں نے آئندہ انتخابات کو اُجاگر کرتے ہوئے کہاکہ پہلی بار کسی شخص کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بناکر پیش کیا جارہا ہے اور یہ بھی پہلی بار ہے کہ ایسے امیدوار کی تقریریں عوام کے لئے ملک گیر سطح پر دستیاب ہیں کیونکہ اُن کا راست نشریہ کیا جارہا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ وزرائے اعظم بھی اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ ذرائع ابلاغ کا انتظامیہ بڑی شدت کے ساتھ مودی کو فروغ دے رہا ہے۔ شردپوار نے تبصرہ کیاکہ اُنھیں یقین نہیں ہے کہ غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی حکومت انتخابات کے بعد مرکز میں قائم ہوسکے گی۔ اِس سے زیادہ اُنھیں ایسی کسی حکومت کے قیام کی صورت میں اِس کے بقاء کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ ایسا انتظام صرف عارضی انتظام ہوتا ہے اور باہر سے تائید فراہم کرنے والی کوئی بھی پارٹی اِسے زوال پذیر کرسکتی ہے چاہے وہ کانگریس ہو یا بی جے پی، سیاسی اعتبار سے اُن کے لئے جب بھی مناسب ہو وہ ایسی حکومت کو زوال پذیر کرسکتے ہیں۔ ایک بات یقینی ہے کہ کئی مقامات پر ٹوپیاں پہنے ہوئے عوام زیادہ نظر آرہے ہیں۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنھوں نے کہاکہ وہ یو پی اے میں ہیں اور یو پی اے میں ہی رہیں گے۔ این سی پی یو پی اے میں دوسری سب سے بڑی پارٹی ہے کیونکہ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کے نے یو پی اے سے قطع تعلق کرلیا ہے۔ انتخابات کے بعد اُن کے امکانی کردار کے بارے میں سوال پر پوار نے مزاحیہ انداز میں کہاکہ 50 سال کی انتخابی سیاست کے بعد وہ اب راجیہ سبھا میں پہونچ گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اب بیت المعمرین میں آرام کریں۔ تاہم اُنھوں نے کہاکہ اُنھیں یو پی اے میں مختلف پارٹیوں کے درمیان ہم آہنگی پر خوشی ہوگی۔