بیان بازی نہیں کارروائی ضروری

شکستہ پائی کی نظروں میں کیا مقام ان کا
جو راستے مرے قدموں کا بار اٹھا نہ سکے
بیان بازی نہیں کارروائی ضروری
وزیراعظم نریندر مودی ایسا لگتا ہے کہ عوامی احتجاج اور ملک بھر میں پیدا ہورہی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے ہجوم کے ذریعہ بے گناہ مسلمانوں اور کبھی دلتوں کے قتل اور مار پیٹ کے واقعات پر زبان کھولنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ انہوں نے کل اپنی آبائی ریاست گجرات میں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے گائے کے تحفظ کے نام پر انسانوںکا قتل کئے جانے کی مخالفت کی ہے ۔ انہوں نے اس کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ گاندھی جی نے سب سے زیادہ گائے کی حفاظت کی ہے لیکن وہ بھی آج کے دور میںگائے کے تحفظ کے نام پر انسانوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتے ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ یہ گائے کے تحفظ پر قتل کی اجازت دی جاتی ہے یا نہیں ۔ سوال یہ بھی نہیں ہے کہ آج کے دور میں گاندھی جی اس کی تائید کرتے یا نہیں۔ یقینی طور پر گاندھی جی قابل احترام ہیں لیکن اصل بات انسانی جانوں کے اتلاف اور بے گناہوں کے خون کا ہے ۔ وزیر اعظم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ انہو نے محض ایک بیان دیتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کرلی ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے ۔ انہوں نے ان واقعات پر زبان کھولی بھی ہے تو اس وقت جب تک کئی جانیں تلف ہوچکی ہیں اور انسانیت کا قتل کرنے والوں کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ جہاں ایک طرف مودی اس قتل کے واقعات کی مذمت کر رہے تھے ٹھیک اسی وقت ان کی ہی پارٹی کے اقتدار والی ریاست جھارکھنڈ میں ایک اور مسلم نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایک طرف وزیر اعظم تو اس طرح کے واقعات کی مخالفت کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ان ہی کی پارٹی کے اور کابینہ کے وزیر نام نہاد اقلیتی لیڈر مختار عباس نقوی ہجوم کے ہاتھوں نوجوانوں کی ہلاکت کی مذمت کرنے تک کو تیار نہیں ہے ۔ یہ حکومت کا ڈوغلا پن اور دوہرا معیارہے ۔ وزیر اعظم نے بھی جو بیان جاری کیا ہے وہ بھی صرف ایسا لگتا ہے کہ بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی اور تشویش کو دیکھتے ہوئے جاری کیا ہے ورنہ تو اب تک انہوں نے بھی اس سنگین صورتحال پر خاموشی اختیار کی ہوئی تھی ۔ مختار نقوی نے اقلیتوں سے متعلق کابینی کمیٹی کے اجلاس میں نہ ان ہلاکتوں کی مذمت کی اور نہ مرنے والوں سے اظہار یگانگت کے طور پر دو منٹ کی خاموشی منانے سے اتفاق کیا ۔
حکومت کو اور خاص طور پر وزیر اعظم کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ صورتحال اب اس تک سنگین ہوگی ہے کہ ان کی صرف بیا ن بازیوں اور خوش کن باتوں سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ وزیر اعظم نے چند ماہ قبل حیدرآباد میں اپنے دورہ کے موقع پر کہا تھا کہ گاو رکھشکوں کی جانب سے غیر قانونی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں اور ان پر انہیں بہت غصہ آتا ہے ۔ جو لوگ رات بھر غیر قانونی اور ناجائز سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں وہ دن میں گاؤ رکھشک بن جاتے ہیں۔ اب نریندر مودی کو یہ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ ان کے بیان کا اثر کیا ہوا ۔ انہوںنے کہا تھا کہ ریاستی حکومتوں کو ان گاؤ رکھشکوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو گائے کے نام پر جن ریاستوں میں قتل کیا گیا ہے یا مار پیٹ کی گئی ہے یا ان کی املاک کو نقصان پہونچایا گیا ہے وہ سب بی جے پی کے اقتدار والی ریاستیں ہیں۔ وزیر اعظم نے خود اپنی پارٹی کی ریاستی حکومتوں سے اب تک کوئی جواب کیوں طلب نہیں کیا ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ مرکزی وزارت داخلہ تک نے بھی اس صورتحال پر ریاستی حکومتوں سے کوئی جواب طلب کرنے سے واضح انکا رکردیا ہے ۔ایک جانب سیاسی تشدد پر مغربی بنگال کی حکومت سے تو وضاحت طلب کی جاتی ہے لیکن نفرت کی بنیاد پر اور مذہب کے نام پر گائے کی حفاظت کے بہانے سے انسانوں کا قتل کردیا جاتا ہے لیکن بی جے پی کی حکومتوں سے خود بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کوئی جواب تک طلب کرنا ضروری نہیں سمجھتی ۔
وزیر اعظم نریند رمودی کو صرف بیان بازیوں تک محدود نہیں رہنا چاہئے ۔ انہیںاس ملک کے حکمران کی حیثیت میں ہر شہری کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے ۔ ناقابل یقین حد تک بگڑ چکے ہیں۔ جانوروں کی حفاظت کے نام پر انسانوں کا قتل و خون بہایا جا رہا ہے یہ ہماری ذہنی پسماندگی کی حد ہوگئی ہے ۔ اگر وزیر اعظم اب بھی اس صورتحال میں بھی صرف بیان بازی کو کافی سمجھتے ہیں تو وہ غلط ہیں اور اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے فرار حاصل کر رہے ہیں۔ انصاف کا تقاضا اور ان کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ جن ریاستوں میںایسے واقعات ہو رہے ہیں وہاں کی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا جائے ۔ ان سے رپورٹس اور وضاحتیں طلب کی جائیں ۔ ان سے جواب طلب کیا جائے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے انہیں انتباہ دیا جائے ۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا صورتحال کو صرف بیان بازیوں سے قابو میں نہیں کیا جاسکتا۔