بہار میں اُلٹ پُلٹ کی سیاست

آخر وہ میرے قد کی بھی حد سے گزر گیا
کل شام میں تو اپنے ہی سائے سے ڈر گیا
بہار میں اُلٹ پُلٹ کی سیاست
بہار میں حکومت گرانے اور بنانے کا حال کچھ اس طرح ہوگیا ہے کہ کسی آٹو اسٹانڈ پر پھیری کرنے والا آٹو کھڑا ہو جب بھی لوگ چلنے کو کہیں تو ڈرائیور کہہ کہ بس جی دو چار سواریاں اور آجائیں بس چلتے ہیں۔ بی جے پی نے جس لیڈر کی حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا اس نے تو اسمبلی آزمائش سے پہلے ہی استعفیٰ دیدیا۔ قومی پارٹی بی جے پی کے لئے اس کی یہ حرکت افسوسناک و شرمناک ہے کہ اس نے ایک ایسے لیڈر کو ایوان میں تائید کی جس کے حق میں پارٹی کے 20 ارکان اسمبلی بھی نہیں تھے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے جیتن رام مانجھی کا استعفیٰ بہت پہلے دیا جانا چاہئے تھا لیکن جنتادل (یو) میں دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کے حصہ کے طور پر بی جے پی نے جیتن مانجھی کو گمراہ کیا۔ بہار کی حکومت میں بی جے پی کی رخنہ اندازی اس کے لئے مستقبل میں سیاسی خسارہ کا باعث بن سکتی ہے۔ بہت پہلے جس طرح کی غلطیاں کانگریس کیا کرتی تھی اب اس کی جگہ بی جے پی نے لے لی ہے تو اس کا بھی حشر کانگریس جیسا یا اس سے بدتر ہوسکتا ہے۔ بہار میں جنتادل (یو) کے لیڈر کی حیثیت سے نتیش کمار نے چوتھی مرتبہ چیف منسٹر بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُنھوں نے 16 جون 2013 ء کو بی جے پی کی جانب سے نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنائے جانے پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے چیف منسٹر بہار کی حیثیت سے استعفیٰ دیا تھا اور وزارت عظمیٰ کا خواب لے کر آگے بڑھے تھے لیکن بہار کے عوام اور رائے دہی کے مزاج میں فرق ہے اس لئے نتیش کمار کا خواب پورا نہیں ہوا۔ پارٹی نے انھیں لوک سبھا انتخابات کے لئے اپنا لیڈر بناکر پیش نہیں کیا جس کے بعد کے سیاسی حالات نے نتیش کمار کو یہ سیاسی درس دیا کہ اُنھوں نے بہار کے عوام کو دھوکہ دیا تھا جس کی وجہ سے ان کی پارٹی نے لوک سبھا انتخابات میں خاص مظاہرہ نہیں کیا۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کجریوال کی طرح نتیش کمار نے بہار کے چیف منسٹر کی حیثیت سے استعفیٰ دینے کا عجلت میں فیصلہ کرکے اب کجریوال کے خطوط پر عوام سے معذرت خواہی کرکے دوبارہ چیف منسٹر کا حلف لینے والے ہیں تو یہ سوال اہم ہے کہ آیا بہار کے عوام بھی دہلی کے عوام کی طرح نتیش کمار کو قبول کریں گے۔ کیوں کہ بہار کی سیاست میں مختلف سیاسی پارٹیوں خاص کر بی جے پی کی رخنہ اندازی نے سیاسی حالات کو ابتر بنادیا ہے۔ بہار میں جہاں تک نتیش کمار کی مقبولیت کا سوال ہے عوام انھیں ترجیح دیتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی جگہ بھروسہ مند ساتھی جتن رام مانجھی کو چیف منسٹر بنایا تھا۔ تاہم ایک تابعدار چیف منسٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے بجائے اُنھوں نے نتیش کمار اور جنتادل (یو) کی ہدایات کو نظرانداز کرنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں پارٹی سے اُنھیں خارج کردینا پڑا۔ اس کے باوجود مانجھی نے چیف منسٹر کا عہدہ چھوڑنے سے انکار کردیا اور بی جے پی کے اشاروں پر وہ باغیانہ تیور اختیار کرتے ہوئے ایوان اسمبلی میں طاقت کی آزمائش کے لئے بھی تیار ہوگئے۔ بی جے پی نے ایسی شرمناک حرکت کی کہ جس لیڈر کو پارٹی سے خارج کردیا گیا تھا اس کی حمایت کرتے ہوئے حقیر سیاست کرنے کا ثبوت دیا۔ بہار جیسی ایک پیچیدہ ریاست میں سمجھداری کے مظاہرہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بی جے پی نے قومی موقف رکھنے کے باوجود لاشعوری کا ایسا ڈرامہ کیاکہ اُسے منہ کی کھانی پڑی ہے لیکن مانجھی کے استعفیٰ نے بی جے پی کے ناپاک عزائم کو آشکار کردیا ہے۔ سابق میں نتیش کمار نے استعفیٰ دے کر احمقانہ رول ادا کیا تھا جس کا احساس انھیں بعد کے دنوں میں ہونے لگا تو اب وہ بہار کے دوبارہ چیف منسٹر بننے جارہے ہیں۔ 233 رکنی بہار اسمبلی میں 10 نشستیں خالی ہیں اور جادوئی عدد کے لئے 117 کی اکثریت درکار ہے۔ جنتادل (یو) نے ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جنتادل (یو) کے 99 ارکان اور آر جے ڈی کے 24 ، کانگریس 5 ، سی پی آئی ایک اور آزاد ایک رکن کے ساتھ نتیش کمار اپنی حکومت چلانا چاہتے ہیں۔ نتیش کمار کو 130 ارکان کی تائید حاصل ہے تو ان کی ایوان میں شکست ناممکنہے۔ ایسے میں بی جے پی کے دو طاقتور لیڈر نریندر مودی اور امیت شاہ جو کچھ گیم پلان تیار کریں گے اس سے بی جے پی کا ہی نقصان ہوگا۔ بہار کے عوام کے لئے ایک غیر مستحکم حکومت دینے کے لئے جنتادل (یو) اور بی جے پی دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔ نتیش کمار نے مودی کی بڑھتی مقبولیت کو ہضم نہیں کیا۔ جس کو وجہ سے بہار میں بحران کھڑا کردیا گیا۔ سیاسی ماحول کو غیر مستحکم بنانے میں نتیش کمار کا بھی برابر ہاتھ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہار جیسی حساس ریاست میں ووٹ بینک کی سیاست کو بدترین طریقہ سے چلایا جارہا ہے۔ بہار کی ترقی اور عوام کو روزگار دلانے کے لئے کوئی بھی پارٹی سنجیدہ کوشش نہیں کررہی ہے۔ ہر پارٹی کو اپنے اقتدار اور ہر لیڈر کو کرسی کی لالچ میں مبتلا دیکھا جارہا ہے تو بہار کے عوام کو ہی یہ تہیہ کرلینا ہوگا کہ انھیں ایسے لیڈر کو منتخب کرنا چاہئے جو ان کے بنیادی مسائل کی یکسوئی کے لئے دیانتدارانہ سیاست کو عزیز رکھتا ہو۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی طرح بہار میں بھی ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو عوام کے درمیان سے ہی اُٹھ کر بہاریوں کے مستقبل کے لئے کام کرے۔
معاشی اصلاحات کے ٹھوس اقدامات ضروری
عالمی معیشت میں اُبھرتی ہوئی مارکٹوں سے بہتری کی اُمید پیدا ہوئی ہے لیکن بعض ملکوں میں سست روی کا شکار معیشت عالمی مارکٹ کو آگے بڑھنے سے روک رہی ہے۔ چین کی معیشت اس وقت سست روی سے دوچار ہے تو برازیل میں معاشی تعطل پایا جاتا ہے۔ روس میں کساد بازاری کا ماحول ہے جس پر مغربی تحدیدات نافذ ہیں۔ جنوبی افریقہ میں غیر کارکرد معیشت اور بدعنوانیوں نے ترقی کو ٹھپ کردیا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسیوں سے ترقی کی کچھ اُمید پیدا کررہی تھی، ایسے حالات میں اگر ہندوستان نے عالمی معیشت کا سردار بن کر اُبھرنے کا مظاہرہ کیا تو یہ مثبت تبدیلی ہوگی۔ وزیر فینانس ارون جیٹلی کا 28 فروری کو پیش کیا جانے والا بجٹ ہی ہندوستانی معیشت کی درست تصویر کو ظاہر کرے گا۔ نریندر مودی نے تیز تر ترقی اور پیداوار کا وعدہ کرکے عوام کا خط اعتماد حاصل کیا تھا۔ اب اس اعتماد کو برقرار رکھنے کا وقت آگیا ہے تو مودی حکومت کو جولائی 1991 ء کی طرح ایک تاریخی بجٹ پیش کرنا ہوگا جس میں تجارت، بیرونی سرمایہ اور مسابقت کے لئے کھلے مواقع دیئے جانے چاہئے۔ ہندوستان کو آج ایسے ہی مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے جن کی مدد سے عالمی معیشت میں اپنا مقام نمایاں کرسکے۔ وزیر فینانس نے اس سال 7.5 فیصد پیداوار کا نشانہ مقرر کیا گیا تھا لیکن اس نشانہ تک پہونچنے جیسے آثار نظر نہیں آتے۔ اصلاحات کے عمل کو مزید وسیع کرنے پر زور دیا جارہا ہے اور یہ اصلاحات کی کڑی آزمائش ارون جیٹلی کے بجٹ سے ہی ہوگی۔ نریندر مودی کو اپنے اگزیکٹیو اختیارات استعمال کرتے ہوئے عام بجٹ میں ٹھوس اقدامات و اصلاحات کا اعلان کرنا ہوگا۔