زیرزمین پانی کا استعمال بھی مضر صحت، حکومت پر چشم پوشی کا الزام
بھوپال ۔ 2 ۔ ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) ایک غیر سرکاری تنظیم نے آج یہ مطالبہ کیا ہے کہ 1984 ء کے گیس اخراج المیہ کے متاثرہ والدین کے معذور بچوں کی نشاندہی اور موثر علاج کیا جائے۔ یہ تنظیم دنیا کے بدترین صنعتی حادثہ کی 31 ویں برس کے پیش نظر یہ مطالبہ کیا ہے جو کہ متاثرین نے ایک کلینک چلاتی ہے ۔ بھوپال گیس اخراج سانحہ میں تقریباً 3,000 افراد کی موت واقع ہوگئی تھی جو کہ 2-3 ڈسمبر 1984 کی شب پیش آیا تھا۔ سمبھاونا ٹرسٹ کے مینجنگ ٹرسٹی مسٹر ستی ناتھ سارنگی نے بتایا کہ زہریلی گیس کے اخراج سے متاثرہ جوڑوں کو ایسے بچے پیدا ہوئے ہیں جن میں پیدائشی نقص پایا جاتا ہے ۔ ان بچوں کی نشاندہی اور علاج کیلئے مرکزی اور مدھیہ پردیش حکومتوں کو آگے آنا چا ہئے۔ انہوں نے بتایا کہ گیس سانحہ میں زندہ بچ جانے والوں کیلئے سمبھاؤنا کلینک کی جانب سے مفت علاج کیا جارہا ہے جبکہ یونین کاربائیڈ فیکٹری کے قرب و جوار میں زیر زمین پانی بھی زہریلا ہوگیاہے
اور حالیہ سروے میں پتہ چلا کہ زیریں گیس اور پانی کے استعمال سے 20 ہزار خاندانوں کے ایک لاکھ افراد متاثر ہیں کیونکہ گیس اخراج کے بعد اس فیکٹری کو بند کردیا گیا اور اس کی فاضل مادوں کو چھوڑدیا گیا جوکہ بارش کے پانی میں بہتے ہوئے زمین داخل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ 3 سال کے دوران کلینکل ریسرچ میں پتہ چلا ہے کہ گیس کے متاث رین ٹی بی ، کینسر ، فالج ، خواتین کے حمل میں پیچیدگیاں ، نوزائیدہ بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما میں انحطاط ، پیدائشی نقص پائے گئے اور تنظیم کے تحقیقاتی کارکنوں نے 2500 بچوں کی نشاندہی کرنے جن میں پیدائشی نقص کا امکان ہے کیونکہ زیر زمین آلودہپانی کے استعمال سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور سمبھاؤنا ٹرسٹ اندرون ملک اور بیرونی عطیوں کے ذریعہ متاثرین کیلئے مفت خدمات انجام دے رہی ہے۔ ٹرسٹ نے بھوپال گیس کے متاثرین کی سنگین صورتحال کا نمونہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 40 سالہ خاتون عائشہ جو کہ المیہ کے وقت 10 سال کی تھی ، اب انہیں 8 سال کا لڑکا ہے جو کہ ذہنی طور پر معذور پیدا ہوا ہے ۔