تضادات بڑی رکاوٹ ۔ بیف کھانا، سنسکرت پڑھنا بہت اہم ہوگیا۔ منیش سیسوڈیا کا طنز
نئی دہلی ، 28 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) جب بولا جائے تو ’بھارت ماتا کی جئے‘ کا نعرہ لگانا، سنسکرت کی بات کرنا اور بیف نہیں کھانا یہ سب اس ملک میں لوگوں میں امتیاز برتنے کا فیصلہ کن عوامل بن چکے ہیں، ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا نے آج یہاں یہ بات کہی۔ سیسوڈیا جو وزیر تعلیم بھی ہیں، انھوں نے ’’خاص طبقہ‘‘ کیلئے دوڑ میں ہونے اور پھر ’’سب طبقات کو ساتھ لے کرترقی‘‘ کے حصول کی باتیں کرنے کی بابت اس ملک میں جاری ’’تضادات‘‘ کے ماحول کی نشاندہی کی۔ میں سیاستدان اور لیڈر کی حیثیت سے مشمولیت کا خواب دیکھتا ہوں لیکن مشمولیت میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ آپ کو خاص بننے کا موقع نہیں دیتا ہے جو موجودہ طور پر ہمارے سماج کی بنیاد ہے۔ وہ دہلی کو سب کی شراکت والی سٹی بنانے کے زیرعنوان سمپوزیم سے مخاطب تھے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے لوگ ہیں بھارت ماتا کی جئے جبراً کہتے ہیں، ایسے بھی لوگ ہیں جو یہی بات دل سے کہتے ہیں۔ ہم اُن تمام کو جو ہمارے بولنے پر بھی بھارت ماتا کی جئے نہیں کہتے، خاص باقیماندہ سمجھیں گے اور اس طرح سب کی شراکت ہوجائے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس ملک میں امتیاز پانے کیلئے بیف کھانے یا نہ کھانے کی بات کرنا، وندے ماترم گانا پڑتا ہے۔
وہ جو سنسکرت کی بات نہیں کرتے وہ سب کے ساتھ شامل نہیں ہوسکتے۔ یہ اقرار کرتے ہوئے کہ ان پر اکثر صرف وزیر تعلیم کے طور پر کام کرنے اور اپنے دیگر قلمدانوں پر کم توجہ دینے پر تنقید ہوتی ہے، سیسوڈیا نے کہا، ’’سب کی شراکت کو شرمندۂ تعبیر بنانے میں کی راہ تعلیم سب سے بڑی رکاوٹہے۔ ہم ڈھائی سالہ بچہ کو اسکول میں اچھا مظاہرہ کرتے ہوئے خاص بننے کا درس دیتے ہیں۔ لوگ خاص بننے کی دوڑ میں ہی مزید کاریں چاہتے ہیں، اپنے بچوں کو سیول سرویسیس امتحانات میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’ہم اشاریۂ فروغِ انسانی کے تعلق سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ ہم سیاسی انداز نہیں چاہتے ، ہم یہ بات نہیں کریں گے کہ کتنے لوگ سنسکرت کو آئی آئی ٹی میں پڑھنا چاہتے یا نہیں، بیف کھانا جیسے مسائل جھڑپوں کا سبب بنتے ہیں۔ میں معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ جب تک یہ ہوتا رہے ترقی کی تمام رپورٹس اور دہلی بطور شہر مختلف نمونے ہوں گے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ وہ جو سب کی شراکت کی بات کرنا چاہتے ہیں، انھیں بیف کھانے، پڑھائی یا نہ پڑھائی جانے والی زبانوں، اس ملک کے سیاسی منظر یا عوام پر تھوپی جانے والی سیاسی ذہنیت کے تعلق سے بات کرتے رہنا پڑے گا۔