پروفیسرسید عطاء اللہ حسینی قادری الملتانی
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ذکر کے چار مراتب ہیں۔ مرتبۂ اولیٰ میں ذکر صرف زبان سے ہوتا ہے، لیکن دل اس سے غافل رہتا ہے۔ اس کا اثر بھی ہوتا ضرور ہے، لیکن کم کم۔ مرتبۂ ثانیہ میں ذکر دل میں آتو جاتا ہے، لیکن قرار نہیں پکڑتا، نہ گھر کرتا ہے، دل کو تکلف سے ذکر میں مشغول رکھنا پڑتا ہے۔ مرتبۂ ثالثہ میں ذکر دل میں ایسا جاگزیں ہو جاتا ہے کہ کسی اور کام کی طرف دل کو تکلف سے آمادہ کرنا پڑتا ہے، دل خود سے کسی کام پر آمادہ نہیں ہوتا۔
مرتبۂ رابعہ میں مذکور دل میں بس جاتا ہے، دل ذکر اور ذاکر دونوں سے فارغ ہو جاتا ہے۔ یہ محبت کا وہ مقام ہے، جس کو ’’عشق‘‘ کہتے ہیں۔ اس مرتبہ میں عاشق ہمیشہ معشوق کی طرف متوجہ رہتا ہے، بلکہ معشوق کے تصور میں اس کو ایسی محویت ہوتی ہے کہ وہ معشوق کا نام تک بھول جاتا ہے۔ محویت اور استغراق میں محبوب کا غیر اس کے خیال میں آتا ہی نہیں، گویا اس کے نزدیک ’’غیر‘‘ کا وجود ہی نہیں۔ یہ مرتبہ ’’لَامَوْجُوْدَ اِلَّااللّٰہ‘‘ کا ہے، جس کو صوفیہ کرام ’’مرتبۂ فنا‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں ذاکر فانی فی اللہ ہو جاتا ہے، یہاں اللہ ہی اللہ ہوتا ہے، اللہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ وہ مقام وصل ہے، جس میں جدائی کا تصور ہی نہیں۔ یہ جذب کی وہ منزل ہے، جہاں آتش عشق میں تپ کر لوہا آگ بن جاتا ہے۔ اب اگر لوہا کہتا ہے ’’اناالنار‘‘ یعنی میں آگ ہوں تو روا ہے، ورنہ نہیں۔ ٹھنڈے لوہے کا خود کو ’’اناالنار‘‘ کہنا سراسر گستاخی اور زندیقیت ہے۔ اس منزل میں ذاکر اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوتا ہے۔ اب وہ ’’فانی زخود باقی بحق‘‘ ہے۔ جب ذاکر اس درجے میں پہنچتا ہے تو اس عالم کے احوال بیان نہیں کئے جاسکتے۔
ذکر سے پیدا ہونے والے احوال معلوم کرنا چاہتے ہو تو خود ذکر کرکے دیکھ لو، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ ذکر صرف اللہ کی محبت کی طلب میں کی جائے، مقصودِ ذکر صرف اور صرف اللہ کی محبت اور معرفت ہونا چاہئے، اسی کو نعمت کاملہ کہا جاتا ہے۔ ذکر کے بعد بھی اگر احوال ظاہر نہ ہوں تو ذکر سے بیزار اور دلبرداشتہ نہ ہوں، اس لئے کہ سعادت دارین ان احوال پر منحصر نہیں۔ احوال اور کیفیات کو اپنا مقصود بناؤ، بس حق تعالیٰ سے لو لگائے رکھو، بس اس کے در پر دھونی رماکر بیٹھ جاؤ، کسی وقت وہ دروازہ کھول کر تمھیں شرف باریابی بخش دے گا۔
ذکر کے لئے چار باطنی طہارتوں کی ضرورت ہے، جس کا اہتمام ضرور کرنا چاہئے۔ ایک زبان پاک ہو جھوٹ، غیبت اور بدگوئی وغیرہ سے۔ دوسرے پیٹ پاک ہو لقمۂ حرام اور مشتبہ مال سے۔ تیسرے دل پاک ہو ریا، شرک جلی و خفی اور نفاق سے۔ چوتھے سر پاک ہو عجب و غرور اور غیر اللہ کے آگے جھکنے سے۔
طریقت کے سلسلوں میں بے شمار اذکار رائج ہیں، لسانی، قلبی، سری، جہری وغیرہ۔ پھر ان کے طریقے بھی الگ الگ ہیں۔ یہ اذکار کچھ مبتدیوں کے لئے ہیں، کچھ متوسطین کے لئے اور کچھ منتہیوں کے لئے۔
زبان سے اللہ اللہ کا ذکر کریں، یہ ذکر ایک جگہ بیٹھ کر کریں اور یہ خیال کریں کہ اسم ذات اللہ دل میں اُتر رہا ہے۔ یہ ذکر ۲۴ گھنٹوں میں کم از کم دو ہزار مرتبہ ہونا چاہئے، یعنی دس تسبیحیں روزانہ، باقی اوقات میں یہی ذکر زبان سے چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں کرتے رہیں۔
دوسرا ذکر تین لطائف پر کریں۔ داہنے پستان کے دو انگل نیچے ’’لطیفۂ روح‘‘ ہے۔ بائیں پستان کے دو انگل نیچے ’’لطیفۂ قلب‘‘ ہے اور ان دونوں لطیفوں کے درمیان کوڑی کے مقام پر جہاں دونوں طرف کی پسلیاں ملتی ہیں ’’لطیفۂ سر‘‘ ہے۔ ان تینوں لطیفوں پر ’’لاالہ الااللّٰہ‘‘ کا ذکر کیجے اور اس کے معنی خیال میں رکھئے۔ ’’الا اللّٰہ‘‘ کہتے ہوئے قلب پر ضرب لگائیں، یہ ضرب ضروری ہے۔ حضرت ابراہیم مخدوم جی ملتانی رحمۃ اللہ علیہ نے ضرب کو ضروری قرار دیا ہے۔
ہمارے سینوں میں دل کہاں ہیں، پتھر ہیں پتھر۔ ارشاد ربانی ’’پھر اتنا سب ہونے پر بھی تمہارے دل سخت ہو گئے۔ وہ تو پتھر کے مانند ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت‘‘ (سورۃ البقرہ۔۷۴) سے دلوں کی یہی سختی مراد ہے۔ اس پتھر پر جب تک چوٹ نہیں پڑے گی، ضرب نہیں لگے گی تو یہ ٹوٹے گا کیسے اور جب ٹوٹے گا نہیں تو اس میں خدا آئے گا کیوں؟ جب کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’میں ٹوٹے ہوئے دِلوں میں ہوتا ہوں‘‘۔ حضرت ابراہیم مخدوم جی ملتانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ضرب لگانے سے دل کھل جاتا ہے، ورنہ دل ’’قالوا قلوبنا غلف‘‘ کی تصویر ہوتا ہے۔ یہ دوسرا ذکر بہتر ہے کہ ہر نماز کے بعد سو مرتبہ یعنی ایک تسبیح کرلیا جائے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو فجر اور عشاء کے بعد کیا جائے، اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کم از کم مغرب یا عشاء کے بعد ضرور کرلیا جائے، خواہ ایک بار ہی سہی، مگر کریں ضرور، ناغہ نہ کریں۔ اس ذکر کے دوران درمیان میں وقفہ وقفہ سے ’’محمد رسول اللّٰہ‘‘ بھی کہتے رہیں۔
تنہائی کا کوئی وقت مقرر کرکے اللہ کا ذکر کرتے رہیں، خواہ دلجمعی ہو یا نہ ہو۔ کثرت سے ذکر کرتے رہیں، ناغہ نہ کریں۔ ذکر کرتے وقت نیت صرف یہ رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے اور اللہ سے تعلق قائم ہو جائے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور یہ تعلق قائم ہو جائے گا، پھر آپ اللہ کے ہو جائیں گے اور اللہ آپ کا۔ ذکر دل کی بیماریوں کے لئے اکسیر ہے، وسوسوں کی طرف دھیان نہ دیں، خود سے آتے ہیں تو کوئی حرج نہیں، ان کی پرواہ نہ کریں، تاہم خود سے دل میں وسوسے نہ لائیں۔ وسوسہ شیطان کی طرف سے آتا ہے، وسوسے کا دل میں آنا ایمان کی موجودگی کی علامت ہے۔ شیطان وہیں آتا ہے، جہاں ایمان کی دولت ہوتی ہے۔ چور ڈاکو اُن ہی گھروں میں آتے ہیں، جہاں مال ملنے کی توقع ہوتی ہے، فقیر کی جھونپڑی میں کوئی چور آتا ہے نہ ڈاکو۔ آپ کے دل میں ایمان کی دولت ہے، اس لئے شیطان آکر وسوسے ڈال کر آپ کا ایمان چرانا چاہتا ہے۔ اپنے ایمان کی سلامتی کی دعا کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہیں، وسوسوں کی پرواہ نہ کریں۔ خوب یاد رکھیں کہ بُرے خیال کا آنا بُرا نہیں ہے، بلکہ بُرے خیال کا لانا بُرا ہے۔ (اقتباس)