بوگس ناموں کی شمولیت کے ذریعہ نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش

چندرائن گٹہ ، یاقوت پورہ اور نامپلی میں ہزاروں ناموں کا انکشاف ، الیکشن کمیشن متحرک

حیدرآباد ۔ 7 ۔ اپریل (سیاست نیوز) انتخابات میں کامیابی کیلئے امیدواروں کی جانب سے طرح طرح کے حربوں کا استعمال کوئی نئی بات نہیں لیکن حالیہ عرصہ میں بعض جماعتیں اور امیدوار الیکشن کمیشن آف انڈیا کے قواعد کیلئے چیلنج بن چکے ہیں۔ گزشتہ دو انتخابات سے اکثر یہ دیکھا جارہا ہے کہ حیدرآباد کے بیشتر اسمبلی حلقوں میں مخصوص امیدواروں کی جانب سے بوگس ووٹرس کی شمولیت کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ان بوگس رائے دہندوں کے سہارے اپنے حق میں رائے دہی کے ذریعہ کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لوک سبھا حیدرآباد و سکندرآباد حلقوں میں حالیہ دنوں بوگس رائے دہندوں کی شمولیت سے متعلق کئی شکایات منظر عام پر آئی ہیں۔ پارٹیاں اور امیدوار جو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کامیابی پر یقین نہیں رکھتی بلکہ بوگس رائے دہی اور تلبیس شخصی کے ذریعہ اپنے ووٹ میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے انتخابات سے قبل فہرست رائے دہندگان میں ناموں کی شمولیت کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ کمیشن میں اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ بوگس رائے دہندوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے نام فہرست سے خارج کئے جائیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کمیشن میں ایک مخصوص سافٹ ویر موجود ہے جس کے ذریعہ بوگس رائے دہندوں کی شناخت کی جاسکتی ہے لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ریاستی الیکشن کمیشن اور الیکٹورل آفس کے عہدیدار دیگر مصروفیات کے سبب اس جانب توجہ نہیں کرپاتے۔ انتخابات سے ایک سال قبل مخصوص امیدوار جماعتیں چالاکی کے ساتھ بوگس ناموں کو فہرست میں شامل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں شہر کے اسمبلی حلقہ جات نامپلی ، چندرائن گٹہ اور یاقوت پورہ میں ہزاروں کی تعداد میں بوگس رائے دہندوں کی شمولیت کا انکشاف ہوا ہے ۔ ان حلقوں میں اپنا اثر رکھنے والے قائدین نے سخت محنت کے ذریعہ ان بوگس ناموں کو منظر عام پر لایا اور الیکشن کمیشن کو اس کی شکایت کی گئی ۔ حلقہ اسمبلی نامپلی میں 7,000 سے زائد بوگس ناموں کی نشاندہی کی گئی جبکہ چندرائن گٹہ میں 21,200 اور یاقوت پورہ 18,600 بوگس ناموں کی نشاندہی کی گئی ۔ شہر کے دیگر اسمبلی حلقہ جات کی فہرست رائے دہندگان کا بغور جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی بڑی تعداد میں ایسے بوگس ناموں کا پتہ چلے گا۔ رضاکارانہ تنظیمیں اس جانب توجہ کریں تو انتخابات میں حقیقی رائے دہندوں کی رائے دہی کی بنیاد پر نتائج کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ رضاکارانہ تنظیموں کی جانب سے الیکشن واچ کے نام پر بعض ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں تاہم ان کی توجہ انتخابی مہم میں دولت ، طاقت اور رائے دہندوں کو لبہانے کیلئے شراب اور دیگر اشیاء کی تقسیم کو روکنے پر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بوگس رائے دہندوں میں تصویر تو ایک ہی ہوتی ہے لیکن نام ، عمر اور والد کے نام میں تبدیلی کے ساتھ ایک ہی پتہ پر 5 تا 10 بوگس نام شامل کئے جاتے ہیں۔ خواتین کی صورت میں ان کے شوہر کے نام تبدیل کردیئے جاتے ہیں۔ تاہم تصویر ایک ہی ہوتی ہے۔ شریعت اسلامی کے اعتبار سے بھی کسی بھی شخص کو نام تبدیل کرتے ہوئے ووٹ دینے کی اجازت نہیں ، خاص طور پر خواتین کیلئے یہ نازک معاملہ ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود بھی سیاسی جماعتیں اور امیدوار اپنے مقاصدکی تکمیل کیلئے بوگس رائے دہندوں کی بنیاد پر اپنی کامیابی کو یقینی بنارہے ہیں۔ شہر کی ایک سماجی تنظیم کے ذمہ دار نے بتایا کہ اس کے بوگس ناموں کی شمولیت کا رجحان پرانے شہر کے اسمبلی حلقہ جات میں دیگر حلقوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عہدیداروں کی ملی بھگت کے باعث ہی اس طرح کے نام فہرست میں شامل کردیئے جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں تین اسمبلی حلقہ جات کے بارے میں الیکشن حکام سے جو شکایت کی گئی اس پر اعلیٰ عہدیداروں نے سنجیدگی کے ساتھ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ متعلقہ ریٹرننگ آفیسر نے بوگس ناموں کی شمولیت کی توثیق کرتے ہوئے کلکٹر حیدرآباد کو اپنی رپورٹ پیش کردی ہے۔ توقع ہے کہ رائے دہی سے قبل شائع کی جانے والی فہرست رائے دہندگان میں اس طرح کے نام شامل نہیں کئے جائیں گے۔ بوگس رائے دہندوں کی شمولیت کے علاوہ اپنے حریفوں کے نام فہرست سے حذف کرنے کی بھی سازش کی جاتی ہے۔ حلقہ اسمبلی ملک پیٹ میں ایک پولنگ بوتھ سے سینکڑوں کی تعداد میں نام خارج کرنے کی شکایت ملی ہے۔ ٹی آر ایس سے تعلق رکھنے والے ایم ایل سی اور ان کے افراد خاندان کے نام بھی انتخابی فہرست سے خارج کردیئے گئے تھے۔ ان حالات میں رائے دہندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھیں جو کہ آئندہ پانچ برسوں کیلئے اپنی خدمات گزارکے انتخاب میں اہمیت کا حامل ہے۔ اگر بوگس ناموں کی بنیاد پر ہی کامیابی حاصل کی جائے تو پھر یہ جمہوریت کے ساتھ مذاق ہوگا۔