حیدرآباد /4 جون ( راست) آج جبکہ دنیا ہر طرح سے ترقی کرچکی ہے اور کرتی جارہی ہے تعلیمی اعتبار سے تہذیب و تمدن کے اعتبار سے سائنسی اعتبار سے اور ایک دوسرے کے حقوق کی حفاظت کے اعتبار سے حتی کہ جنگل کے جانوروں کے ساتھ بھی زیادتی کی اجازت نہیں ہے اور جو ان کے خلاف زیادتی کرے اس کیلئے سخت سزائیں و قوانین ہیں ۔ اسی طرح پالتو جانوروں اور ہمارے ارد گرد ہونے والے آوارہ جانوروں کے حقوق اور ان جانوروں کو اپنانے اور راحت پہونچانے کی بات کہی جارہی ہے جو بہت اچھی بات ہے ۔ ایسا ہونا چاہئے لیکن ایک طرف اتنی رواداری و ہمدردی کی باتیں اور اس پر کچھ عمل کے ساتھ دوسری طرف دنیا کے نقشہ میں ایک معروف ملک ’’ برما ‘‘ جس کی سرحدیں ہمارے ملک سے ملتی ہیں جس کی تقریباً چھ کروڑ آبادی میں تقریباً دس لاکھ روہنگیا مسلمان بستے ہیں جو اس ملک میں تقریباً سو سال سے زیادہ عرصہ سے مقیم ہیں لیکن صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں شہریت سے محروم کردیا گیا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک بڑے طبقہ کو مہاجرین کی طرف کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا ۔ اس پر بھی دل ٹھنڈا نہ ہوا تو لاکھوں لوگوں کو قتل کرکے سمندر میں پھینک دیا گیا ۔ روزانہ بچوں ، بوڑھوں ، عورتوں اور جوانوں کو گھروں سمیت زندہ جلایا جارہا ہے ۔ اس وقت اس ظلم سے بچنے اور اپنی جان بچانے کیلئے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ سمندروں کے حوالے ہیں جن کے بھوک سے بلبلاتے ویڈیو ز ، وطن میں رہنے والوں کے زندہ جلائے جانے اور پھانسی دئے جانے اور سر تن سے جدا کئے جانے کے ویڈیوز ایک ہمدرد انسان دیکھ نہیں سکتا ۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ ان کی جانوں کو بچانے ان کے حقوق کیلئے کسی ملک کو تو آگے بڑھنا چاہئے ۔ اس طرح آگے آتاہوا کوئی دکھائی نہیں دے رہا ہے سوائے ترکی کے ، یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہیں ۔ ایسے حالات میں ساری مہذب دنیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی مدد کرے اور ہم بحیثیت مسلمان و انسان ہونے کے ان کیلئے جو کرسکتے ہیں وہ کریں ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں ۔ جمہوری انداز زیں ہمیں اپنے غم و غصہ کے اظہار کا حق ہے ۔ ہم اپنی حکومت پر بھی دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ برما کے ظلم کو رکوانے کی حتی الامکان ہر اعتبار سے کوشش کرے ۔ اسی طرح ہمارے ملک کی دینی و سیاسی تنظیمیں بڑے پیمانے پر اس ظلم کے خلاف احتجاجی جلسے کریں اور احتجاجی خطوط حکومت ہند اور برما کے سفارت خانہ کو روانہ کریں تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ان مظلوموں کو کچھ راحت ہوگی ۔ ان خیالات کا اظہار مولانا محمد فصیح الدین ندوی نے اپنے ایک صحافتی بیان میں کیا ۔ مولانا نے مزید کہا کہ اگر ہم کچھ بھی کوشش نہ کریں تو عنداللہ و عندالناس مسؤل ہوں گے ۔