اُدھر اُن کی سیہ زلفیں اِدھر میری سیہ بختی
اندھیرا ہی اندھیرا ہے مری دنیا جہاں تک ہے
برقی کٹوتی
ریاست میں برقی کٹوتی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے۔ گرما کی آمد سے قبل ہی ریاستی حکومت نے عوام الناس کو برقی سربراہ کرنے سے قاصر ہونے کا ادعا کیا ہے۔ برقی کی پیداوار اور طلب میں فرق پیدا ہونے کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ ہر سال اس مسئلہ کے باعث عوام کو گھنٹوں برقی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ کانگریس کی حکمرانی کو ’گڈ گورننس‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس نے کئی شعبوں کو تباہ کردیا ہے۔ سب سے زیادہ تباہی برقی شعبہ ہی ہے۔ کئی پراجکٹس شروع ہونے سے قبل بدعنوانیوں کی نذر ہوتے ہیں۔ جنوبی و شمالی ڈسکامس نے پہلے ہی دیہی علاقوں میں 6 تا 8 گھنٹے برقی کٹوتی شروع کی ہے۔ میونسپلٹیوں میں چار گھنٹے برقی سربراہ بند ہے اور روزانہ 1,000 میگا واٹ برقی طلب اور سربراہی میں فرق پیدا ہوجائے تو اسے حکومت کی نااہلی ہی قرار دیا جائے گا۔ اے پی ٹرانسکو کا دعویٰ ہے کہ وہ سنٹرل جنریشن اسٹیشنوں پر انحصار کرتا ہے۔ برقی قلت پر قابو پانے کی کوشش کرے گا۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کو ایک ترقی یافتہ علاقہ بنانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت برقی کی سربراہی کے معاملہ میں ناکام ہے۔ جس شہر میں عالمی درجہ کے میٹرو ریل کی تیاریاں جاری ہیں، وہاں پسماندگی کا مظاہرہ برقی کٹوتی سے کیا جارہا ہے تو شہریوں کو یہ جان کر صدمہ ہوگا کہ ترقی اور پسماندگی کے درمیان حکومت نے عوام الناس کے سامنے کتنے جھوٹ بولے ہیں۔ متحدہ آندھرا پر توجہ دینے والی کرن کمار ریڈی حکومت اپنی بدترین کارکردگی کی افسوسناک تاریخ چھوڑ رہی ہے۔ برقی کو شمالی گرڈ سے لایا جاسکتا ہے، لیکن یہ سیما۔ آندھرا قائدین تلنگانہ کے کسانوں کی قسمت پر توجہ نہیں دیں گے۔ اس علاقہ کو جب پانی اور برقی نہ ملے تو خودکشی کے مترادف ہوگا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے گی کہ اگر مرکز نے تلنگانہ بنادیا تو پھر اسے مزید کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ برقی کٹوتی کے آغاز کے ساتھ صرف تلنگانہ کے کسانوں کو ہی بدترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ خریف کا موسم اور فصلوں کا انحصار بورویل کے پانی پر ہوتا ہے۔ اگر برقی بند رہی تو باؤلیوں یا بورویلس سے پانی کی نکاسی کس طرح ہوگی؟ چیف منسٹر کرن کمار ریڈی اعلان کرتے ہیں کہ ان کی حکمرانی میں ہی تلنگانہ میں زیادہ سے زیادہ ترقی ہوئی ہے جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ آندھرا میں آج بھی کنال کے ذریعہ خاطر خواہ پانی دستیاب ہے۔ چیف منسٹر پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے تلنگانہ کے مالیہ کو صرف اپنے آبائی ضلع چتور کی ترقی کے لئے صرف کردیا ہے۔ برقی سربراہی کو یقینی بنانے کے لئے کانگریس نے پانچ سال قبل لوک سبھا و اسمبلی انتخابات میں انتخابی وعدہ کیا تھا۔ یہ وعدہ وفا نہیں ہوسکا۔ عوام کو ترقی کے ثمرات سے استفادہ کا موقع دینا ضروری ہوتا ہے، مگر یہ حکمراں طبقہ صرف اپنی ترقی کو جائز سمجھتا ہے۔ عوام کی جسمانی، فکری اور ذہنی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے حکمرانوں کی زیادتیوں کے خلاف اُف تک نہیں کرتے۔
بِلاشبہ آندھرا پردیش کے عوام بالخصوص تلنگانہ کے باشندے اس وقت سب سے بڑے صبر آزما دور سے گزر رہے ہیں۔ موجودہ صورتِ حال پر عوام یہ سوچ سکتے ہیں کہ حکومت کے ذمہ داران ہی ہٹ چکے ہیں اور بدترین ابہام کا شکار ہوچکے ہیں تو وہ عوام کو درپیش مسائل حل کرنے پر توجہ کس طرح دیں گے۔ اس لئے آنے والے لوک سبھا انتخابات بھی عوام کے لئے بہترین موقع ثابت ہوں گے جس میں وہ ایک اچھی حکمرانی کے لئے ووٹ دیں گے۔ اس وقت عوام پر ہونے والے ظلم یا ظلم کرنے والے ظالم کا ہاتھ نہیں روکا جاسکتا۔ جرم کی سزا سنائی دیتی دکھائی نہیں دیتی۔ کانگریس کا ہر لیڈر اپنی اپنی ذاتی جنگ میں ظلم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ریاست میں اس وقت وہ کچھ ہورہا ہے جس کی قیاس آرائیاں بہت پہلے ہی ہوچکی تھیں۔ کوئی اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ریاست میں کانگریس کی حکومت کو صاحب بصیرت سیاستداں کی سخت ضرورت ہے، لیکن ایسا سیاستداں اس پارٹی کے کسی گوشے میں بھی نہیں ملے گا۔ برقی کی صورتِ حال اگر حکومت اور اس کے ذمہ داروں کے لئے مایوس کن ہوسکتی ہے تو وہ متبادل انتظامات کرنے پر دھیان دیتی، لیکن اس نے فوری کٹوتی کا اعلان کرکے گرما سے پہلے ہی عوام الناس کو آنے والے دنوں میں مزید سنگینیوں کا اشارہ دے دیا ہے۔
حکومت اپنی متعین منزل کی طرف سفر کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ بِلاشبہ موجودہ حکومت کو بہت سے سنگین چیالنجس، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہے، لیکن یہ کس نے پیدا کرلئے ہیں، یہ حکومت یا حکمراں پارٹی ہی بتاسکتی ہے۔ حکمران پارٹی کو اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں، غلطیوں اور لغزشوں سے بے سمت ہوجائے کو پھر اسے دوبارہ اقتدار ہرگز نہیں مل سکتا۔ اسے ایک جامع لائحہ عمل بناکر عوام کو بہترین حکومت دینے کی توفیق نہیں ہوسکی۔