مفکر ادارہ کا دعویٰ ، سعودی سفارت خانہ کی جانب سے تردید
لندن۔ 5 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ایک مفکر ادارہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ برطانیہ میں اسلامی انتہا پسندی کے لئے زیادہ تر بیرونی فنڈس سعودی عرب سے پہونچتے ہیں لیکن سعودی عرب کے سفارت خانہ نے اس دعویٰ کو بالکلیہ طور پر غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے ۔ ہنری جیکسن سوسائٹی کے ایک فیلو ٹام ولسن نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’ایران اور خلیج کے مختلف ادارے اگرچہ انتہا پسندی کے فروغ کے خاطی رہے ہیں لیکن سعودی عرب میں واقع ادارہ اس ضمن میں سرفہرست ہیں‘‘۔ لندن میں واقع خارجہ پالیسی کے سرکردہ مفکر ادارہ کے مطابق 1960ء کی دہائی سے سعودی عرب کی جانب سے مغربی ممالک کی مسلم برادریوں کے بشمول سارے عالم اسلام کو وہاں اسلام برآمد کرنے کیلئے کئی ملین ڈالرس کی سرمایہ سے کی جانے والی مساعی کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔ اس ادارہ نے کہا کہ انتہائی قدامت پسند سعودی عرب ’’وہابیت‘‘ پر مبنی سخت گیر سنی فقہ کا مرکز ہے اور یہ مملکت اسلام کے دو مقدس ترین مقامات کی سرزمین بھی ہے۔ رپورٹ نے کہا کہ سعودی عرب سے فنڈس کی فراہمی کی ابتداء ان مسجدوں کو وقف کرنے سے ہوئی ہے جو بعدازاں انتہا پسند مبلغین کی میزبانی اور انتہا پسند مواد کی تقسیم کا مرکز بن گئیں۔ اس رپورٹ نے برطانیہ میں انتہائی سنگین نفرت کا پرچار کرنے والے بعض اسلامی مبلغین کا حوالہ بھی دیا جنہوں نے اسکالرشپ پروگرام کے حصہ کے طور پر سعودی عرب میں تعلیم حاصل کیا تھا۔ اس دوران لندن میں واقع سعودی سفارت خانہ نے بی بی سی کو دیئے گئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ (رپورٹ کے) دعوے بالکلیہ طور پر غلط ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم نے پرتشدد انتہا پسندی کے کسی عمل یا نظریہ کی کبھی تائید نہیں کی اور نہ ہی کبھی اس کی تائید کریں گے۔ ہم اس وقت چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ایسے گمراہ عناصر اور ان کی تنظیمیں مکمل طور پر تباہ نہیں کئے جاتے‘‘۔ ہنری جیکسن سوسائٹی نے مسجدوں اور دیگر اسلامی اداروں کی جانب سے بیرونی فنڈس کی وصولی سے متعلق اعلان کے لزوم کیلئے ایک نیا قانون وضع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔