لندن ، 3 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والی یونیورسٹی کی ایک طالبہ شام میں ہے اور وہاں صدر بشارالاسد کے خلاف برسر پیکار اسلامی جنگجو گروپ میں شامل ہو کر اپنے تئیں داد شجاعت دے رہی ہے۔ اس نے برطانوی مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ملک کو ’’میدان جنگ‘‘میں تبدیل کر دیں۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اس جہادی دوشیزہ کا نام اقصیٰ محمود ہے۔ اس کی عمر 20 سال ہے اور وہ گلاسگو سے تعلق رکھتی ہے۔ اسکاٹش پولیس اور سکیورٹی سروسز نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اقصیٰ محمود 2013ء میں یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر شام چلی گئی تھی اور وہاں جنگجوؤں کے ساتھ شامل ہو گئی تھی۔ شام پہنچنے کے بعد اقصیٰ نے کسی جنگجو سے شادی کر لی تھی۔ اس کے بعد وہ ٹویٹر پر اپنی سرگرمیوں کی اطلاع دیتی رہتی ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی امریکہ اور برطانیہ میں کارروائیوں پر اکسا رہی ہے۔ وہ ٹویٹر پر اُم لیث کے نام سے پیغامات جاری کر رہی ہے۔ اس دوشیزہ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’’وول وچ، ٹیکساس اور بوسٹن وغیرہ میں اپنے بھائیوں کی مثالوں کی پیروی کریں۔ آپ کو کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ عقیدے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ ان شہروں میں بعض مسلم جنگجوؤں نے حملے کیے تھے۔ اس نے مزید لکھا کہ ’’جہاد صرف شام تک محدود نہیں ہے ،خراسان، مشرقی افریقہ اور یمن میں بھی لڑائی جاری ہے۔ کفار کے خلاف عالمی جنگ جاری ہے‘‘۔ اس کے پروفائل پر سخت گیر جنگجو گروپ دولت اسلامی عراق و شام (داعش) کے پرچم کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ اس نے مزید لکھا ہے کہ ’’اگر آپ میدان جنگ میں نہیں آسکتے تو پھر خود ہی میدان جنگ بن جائیں‘‘۔ ڈیلی میل نے لکھا ہے کہ اقصیٰ کے راسخ العقیدہ سخت گیرنظریات کا حامل ہونے پر اس کے خاندان کے افراد اور دوست ہکا بکا ہو کر رہ گئے تھے۔ اس خاتون کے والد پاکستان سے اسکاٹ لینڈ منتقل ہوئے تھے۔ وہ کریگ ہولم اسکول میں زیر تعلیم رہی ہے اور اس کی دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ مغربی طرز کی زندگی گزارتی رہی تھی، وہ میک اپ اور اچھے کپڑوں کی دلدادہ تھی اور اپنی دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتی رہتی تھی۔