حضرت شفیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حج بیت اللہ کے لئے گھر سے روانہ ہوا۔ جب قادسیہ پہنچا تو وہاں ایک خوبصورت نورانی شکل والے اللہ کے بندہ کو دیکھا، جو سادہ کپڑے میں ملبوس لوگوں کی راہ میں بیٹھے تھے۔ میں نے اُن کو دیکھ کر دل میں یہ گمان کیا کہ یہ شخص کوئی صوفی ہے اور راستے میں لوگوں پر بوجھ بننے کے لئے بیٹھا ہے۔ یہ سوچ کر جب میں ان کے قریب پہنچا تو انھوں نے فرمایا ’’اے شفیق! اِجتنبوا کثیرًا من الظن ان بعض الظن اثم‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اُٹھے اور روانہ ہو گئے۔ میں بھی اُن کے پیچھے پیچھے چل پڑا اور دل میں سوچنے لگا کہ یہ تو کوئی بڑے ہی کامل بزرگ ہیں، تب ہی تو میرے خیال کو جان لیا، لہذا میں ان سے ضرور معافی چاہوں گا۔ چنانچہ جب میں آگے برھا تو دیکھا کہ وہ ایک جگہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ بحالت نماز ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہے اور اعضاء کانپ رہے ہیں۔ میں وہیں بیٹھ گیا اور جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے دیکھتے ہی فرمایا ’’اے شفیق! یہ آیت پڑھو اِنی لغفارٌ لمن تاب واٰمن وعمل صالحًا‘‘۔ پھر وہ وہاں سے بھی اُٹھ کر چلے گئے اور نظروں سے غائب ہو گئے۔
پھر جب میں منٰی پہنچا تو ایک کنواں کے قریب انھیں بیٹھا ہوا پایا۔ اس وقت وہ کہہ رہے تھے ’’الہی! میرے پاس ڈول نہیں ہے اور مجھے پانی کی ضرورت ہے‘‘۔ کیا دیکھتا ہوں کہ کنویں کا پانی اُبل کر اوپر آگیا اور انھوں نے برتن بھرکر وضوء کیا، نماز ادا کی اور پھر اسی برتن میں مٹھی بھر ریت ڈال کر برتن کو ہلایا اور پانی پینا شروع کردیا۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا اور کہا کہ ’’یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر انعام فرمایا ہے، اس میں سے کچھ مجھے بھی عطا فرمائیے‘‘۔ چنانچہ انھوں نے وہ برتن مجھے دے دیا اور فرمایا ’’لو پی لو!‘‘۔ جب میں نے پیا تو ’’خدا کی قسم! اس میں میٹھا ملا ہوا بہترین ستو پایا، جسے میں نے کھایا اور پیا، جو اتنا لذیذ تھا کہ آج تک اس کی لذت نہیں بھول سکا‘‘۔پھر وہ وہاں سے بھی غائب ہو گئے اور اگلے روز میں نے ان کو آدھی رات کے وقت حرم شریف میں نماز پڑھتے دیکھا۔ پھر صبح کو میں نے دیکھا کہ وہ جس راستے سے گزر رہے ہیں، لوگ بڑے ہی ادب و تعظیم سے اُنھیں سلام عرض کر رہے ہیں۔ میں نے لوگوں سے ان کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے حضرت حضرت امام موسیٰ بن جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ (روض الریاحین۔۵۹)