دل تو ایک ہے لیکن نامِ دل بدلتا ہے
بس گیا تو گلشن ہے لُٹ گیا تو صحرا ہے
بدلتی سیاسی وابستگیاں
مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس سے علیحدہ شدہ لیڈر مکل رائے نے بالآخر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ مکل رائے نے حالیہ عرصہ میں یہ واضح اشارے دئے تھے کہ وہ بی جے پی میں شمولیت اختیار کرینگے ۔ ان کے اشارے بالآخر اب پورے ہوئے اور وہ باضابطہ طور پر اپنی ترجیح والی سیاسی جماعت میںشامل ہوگئے اور انہوںنے جس جماعت کے خلاف گذشتہ عرصہ میں انتخابات میں مقابلہ کیا تھا اب اسی جماعت کو سکیولر ہونے کا سرٹیفیکٹ بھی جاری کردیا ہے ۔ انہوں نے دہلی میں منعقدہ تقریب میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی اور اس یقین کا بھی اظہار کردیا کہ مغربی بنگال میں بی جے پی بہت جلد اقتدار حاصل کرلے گی ۔ بی جے پی ویسے تو مغربی بنگال میں اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں جٹی ہوئی ہے اور اس کیلئے ہر طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ریاست میں فرقہ پرستی کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ۔ بردوان دھماکوں کے مسئلہ کا استحصال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے بعد دارجلنگ میں گورکھا احتجاج کو ایک نئے انداز سے ہوا دی گئی اور پھر وہاں سے سکیوریٹی فورسیس کو واپس طلب کرلیا گیا ۔ مقامی سطح پر بھی کئی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے ریاست میںفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کوششیں عروج پر پہونچ گئی ہیں۔ ترنمول کانگریس کے خلاف سیاسی ہتھکنڈے اختیار کئے گئے اور ا س کے بعض اہم قائدین کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے انہیںہراساں کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ ساری کوششیں صرف بی جے پی کو ریاست میں مستحکم کرنے اور وہاں قدم جمانے کا موقع حاصل کرنے کے مقصد سے کی گئیں۔ ان ساری کوششوں کے حالانکہ بی جے پی کو خاطر خواہ فائدہ نہیںہوا ہے لیکن اس نے ابھی اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور اب خود ترنمول کانگریس کے قائدین کو رجھاتے ہوئے اپنی صفوں میں شامل کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے ۔ ترنمول کانگریس کو ریاست میں عوام کی بھرپور تائید حاصل ہے اور گذشتہ اسمبلی انتخابات میں اسے کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کے مقابلہ میں بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اسے کمزور کرنے کیلئے بی جے پی کی کوششیں فی الحال کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔
مکل رائے کو ترنمو ل کانگریس میں اہم مقام حاصل تھا ۔ وہ ممتابنرجی کے بعد دوسرے طاقتور ترین قائد سمجھے جاتے تھے لیکن حالیہ عرصہ میں ان کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔ جس وقت تک وہ ترنمول کانگریس میں رہے انہوں نے بی جے پی کے خلاف شدید تنقیدیں کی تھیں اور اسے فرقہ پرست جماعت قرار دیا تھا ۔ تاہم وہ پارٹی کے بعض حالیہ فیصلوں اور اقدامات سے ناراض تھے ۔ خاص طور پر انہیں کچھ اہم عہدوں پر ہوئے تقررات پر ناراضگی تھی اور اس کی وجہ سے وہ پارٹی سے دور ہوتے جا رہے تھے ۔ وہ کھلے عام پارٹی کے کچھ فیصلوں پر ناراضگی کا اظہار کر رہے تھے ۔ ان کے اشاروں کو سمجھتے ہوئے ترنمول کانگریس نے انہیں چھ سال کیلئے پارٹی کی رکنیت سے معطل کردیا تھا ۔ اب وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں اور اس کو سکیولرازم کا سرٹیفیکٹ بھی جاری کردیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں کام کرنے کو قابل فخر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہی مکل رائے تھے جنہوں نے حکومت کے خلاف اپنی پارٹی کی جدوجہد میں وزیر اعظم کو بھی کئی موقعوں پر تنقیدوںکا نشانہ بنایا تھا ۔ لیکن اب وہ نریند ر مودی کی قیادت میں کام کرنے کو قابل فخر سمجھنے لگے ہیں اور بی جے پی کو سکیولر قرار دیتے ہیں۔ یہ سیاسی وابستگیوں کی بدلتے ہی نظریات کی تبدیلی قابل فہم قرار نہیں دی جاسکتی ۔ سیاسی قائدین اپنی ترجیحات کی بنیاد پر اور اپنے مفاد کیلئے جماعتیں تبدیل کرسکتے ہیں لیکن وہ اپنے ماضی کے ریمارکس اور تبصروں کو عوام کے ذہنوں سے اوجھل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔
سیاسی قائدین کو یقینی طور پر اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن انہیںعوامی زندگی میں شفافیت اور اصول پسندی کے تقاضوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہندوستان کی جمہوریت کو مستحکم کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں اور قائدین میں سیاسی اقدار اور اصولوں کی پابندی کرنی چاہئے ۔ انہیں عوام کے سامنے اپنے عمل سے مثال پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتیں ہی اصولوںاور اقدار کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہیں اور وہ صرف اپنے مقاصد کی تکمیل اور سیاسی فائدہ کیلئے کسی بھی حد تک گرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ قائدین اپنے مقاصد کی تکمیل کو عوامی مسائل سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرنے والے قائدین کو عوام کو سبق سکھانا چاہئے ۔