کتنا ہجوم غم ہے ہر اک آدمی کے پاس
انسان زندہ رہتا ہے لشکر کے سامنے
بدعنوان سیاستدانوں کی فہرست
کانگریس نے اپنے نوجوان لیڈر راہول گاندھی کو ہندوستانی سیاست کا تاج پہنانے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے اپنے طورپر کئی باتوں کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہوگی اول تو راہول گاندھی کی قائدانہ صلاحیتوں پر اندرون پارٹی اُٹھنے والی انگلیوں کا جائزہ لینا ہوگا ۔ وزارت عظمیٰ کے امیدواروں میں کانگریس کے تقریباً سینئر قائدین دکھائی دیتے ہیں ۔ حلیف پارٹیو ںکے سرکردہ قائدین کو بھی وزارت عظمیٰ کا شوق چرایا ہے ۔ این سی پی کے سربراہ شردپوار کی بھی آرزو ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کی گدی پر بیٹھیں۔ ان کی چیف منسٹر گجرات نریندر مودی سے خفیہ ملاقاتوں کی خبروں کے بعد یہ بات افواہ ہی ثابت ہوگی کہ وزارت عظمیٰ کے وہ دعویدار ہیں۔ لیڈر کیسے کیسے خواب دیکھتا ہے ، کیسے کیسے منصوبہ بناتا ہے اور طرح طرح کی آرزوئیں دل میں پالتا ہے ۔ تاریخ میں عجیب واقعات اور مثالیں ہیں۔ نئی تاریخ میں ایک عام آدمی کو بھی چیف منسٹر کی کرسی مل جاتی ہے ۔ عام آدمی کی پارٹی نے اروند کجریوال کو دہلی والوں کا سربراہ بنادیا ۔ اب یہی عام آدمی قومی قائدین اور تمام بڑی پارٹیوں کی بدعنوانیوں کی فہرست تیار کررہا ہے ۔ چیف منسٹر دہلی نے کئی بڑے قائدین کو نشانہ بنایا ہے ۔ انھوں نے رشوت کے خلاف مہم میں شدت پیدا کردی ہے ۔ پارلیمنٹ کے اندر پاک دامن سیاستدانوں کو داخل ہونے کا ہی موقع دیا جائے اس لئے کانگریس کے قائدین اور بی جے پی کے کئی قائدین کے نام آشکار کئے جارہے ہیں۔ اروند کجریوال نے فی الحال کچھ نام ظاہر کئے ہیں جو برسوں سے بدعنوانیوں کے تعلق سے الزامات کے دائرے میں ہیں ان میں سے کچھ صاف ستھرا امیج بھی رکھتے ہیںلیکن یہ تمام قائدین ہر سال یا ہر انتخابات کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں۔ اروند کجریوال نے کانگریس کے سہارے سے ہی دہلی حکومت حاصل کی ہے تو یہ حیران کرنے والی بات نہیں کہ خود اپنی کوششوں سے عوام کے ووٹ لینے کے باوجود حکومت بنانے کے لئے کرپٹ پارٹی کاساتھ حاصل کرنا پڑا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ یہ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے ضروری تھا لیکن اب رشوت خوروں کی فہرست تیار کرکے ان کے خلاف امیدوار کھڑا کرنے کا عزم رکھنے والی عام آدمی پارٹی کو اپنے منصوبوں میں کامیابی کے لئے رائے دہندوں کا بھرپور اعتماد حاصل کرنے کیلئے سخت جدوجہد کرنی پڑے گی ۔
کانگریس ہو یا بی جے پی اپنے لیڈروں کے امیج کو بہتر بنانے کروڑہا روپئے خرچ کررہے ہیں۔ بی جے پی نے 500 کروڑ روپئے خرچ کرکے مودی کا امیج بنارہی ہے ، اتنی ہی رقم یا اس سے زائد رقم سے راہول گاندھی کی امیج بھی سنواری جارہی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈروں نے اپنی امیج عوام کے حق میں آواز اٹھاکر بنائی ہے ۔ لیکن سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ آیا وہ اپنی انتظامی صلاحیتوں کے فقدان اور انا پرستی کی وجہ سے عوام الناس کے لئے مصیبتیں کھڑا کردیں گی ۔ بی جے پی نے عام آدمی پارٹی پر الزام عائد کیا ہے کہ اروند کجریوال اب کانگریس کے بدعنوان لیڈروں کی پردہ پوشی کررہے ہیں۔ بی جے پی نے 23 جنوری کو دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کو کانگریس قائدین کے خلاف بدعنوانیوں کے ’’ثبوت ‘ پیش کردیئے تھے ۔ رشوت کامسئلہ ایک ناک پہ بیٹھی مکھی نہیں جسے ہاتھ کی ہلکی سی جنبش سے اُڑادیا جائے اس کے خلاف نیچے سے اوپر تک سخت اقدامات اور شفاف کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اروند کجریوال اپنے جلسوں میں جوش خطابت کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ رشوت کی سنگینی اور قائدین کی بدعنوانیوں کو انھوں نے نوٹ کیا ہے اس طرح کے الزامات کسی سیاسی حریف کی طرف سے آئیں تو اسے سیاسی مکروہات کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ اس ملک کے تمام بڑے چھوٹے حکمراں ، غیرحکمراں ، حزب اختلاف یا برسراقتدار پارٹیاں اپنے اطراف رشوت اور بدعنوانیوں کی لاتعداد داستانیں بکھرتے ہوئے آگے بڑھتی آرہی ہیں اب اروند کجریوال کو بدعنوانیوں کے مرتکب قائدین کی فہرست تیار کرنے کا شوق ہوا ہے تو اسے آگے چل کر یا لوک سبھا انتخابات کے بعد شکوک و شبہات کے گرد و غبار میں اڑایا جاسکتا ہے ۔ یہ فہرست کسی محکمہ کی میز پر پڑی سڑ رہی ہوگی ، دھول آلود فائلوں میں یہ فہرست بھی شامل ہوجائے گی لیکن ایک عام آدمی کی آنکھوں کو کھول دینے والے واقعات کے بعد معاملہ سنگین اور توجہ طلب ہوتا ہے ۔ اس لئے عین ممکن ہے کہ عام آدمی ایسے بدعنوان قائدین کو ووٹ دینے کے بجائے عام آدمی کو ووٹ دیں۔ کانگریس اور بی جے پی کے جن قائدین کے نام گنوائے گئے ہیں یہ تمام اپنا طویل سیاسی ریکارڈ رکھتے ہیں ۔ یہ معمولی نوعیت کی بات نہیں ہے اگر واقعی عام آدمی نے ان قائدین کو سزادینے کے لئے نئے چہروں اور صاف و شفاف کردار کے حامل لوگوں کو ووٹ دیا کو کسی حد تک بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے ۔
بعض سیاستداں یہ کہتے نہیں تھکتے کے اُن پر الزامات اور انگلیاں اٹھانے والوں کو جمہوری طورپر کام کرنے دیجئے کیوں کہ سیاسی اختلافات جمہویت کا حسن ہوتے ہیں ، اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چائے ۔ ہندوستان میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں قومی و علاقائی طورپر پارٹیاں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں مگر ان کے بعض قائدین کے تعلق سے کس کو کتنی حقیقت کا علم ہے یہ کوئی نہیں جانتا ۔ ہر پارٹی اپنے حریف کے خلاف امیدوار کھڑا کرے گی تو وہ اپنے امیدوار کو پاکدامن ہی بتائے گی لہذا یہ عام آدمی کی باریک نگاہی اسے پہچان سکے گی یہ کہنا مشکل ہے ۔ جب تک کوئی حریف اپنے مقابل کے خلاف الزامات کا ثبوت پیش نہیں کرتا یہ خرابیاں ختم نہیں ہوں گی ۔
طالبان سے مذاکرات کے لئے حکومت پاکستان کوشاں
پاکستان کو خودکش حملوں ، کار بم دھماکوں اور بندوق کی لڑائی سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت امن کیلئے ٹھوس اقدامات کرے ۔ انتہاپسندوں سے سختی سے نمٹنے کے ساتھ مذاکرات کا پہلو بھی کارگر ثابت ہوتا ہے تو اسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ پاکستان طالبان تحریک کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے وزیراعظم نواز شریف کی پہل اس گڑبڑزدہ تشدد سے متاثرہ ملک پاکستان کے لئے امن کی بحالی میں معاون ہو تو یہ خوش آئند تبدیلی ہوگی ۔ 6 جنوری کو ہنگو اسکول پر خودکش بم حملہ اس کے بعد 10 جنوری کو کراچی میں طاقتور کار بم دھماکہ بعد ازاں 13 جنوری کو خیبرپختونوالا میں دو حملوں سے سارا پاکستان دہل گیا تھا ۔ خون ریزی کے ذریعہ اپنے ہی شہریوں کی جان لینے کی کارروائیاں افسوسناک ہوتی ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے مذاکرات کی پیشکش کی تو طالبان نے اس موقع کی اہمیت کومحسوس کرلیا اور طالبان کے سیاسی شوریٰ نے حکومت کی مذاکرات کی پیشکش پر سنجیدہ غور کیا ہے ۔ حکومت کی چار رکنی کمیٹی کو طالبان کے ساتھ بات چیت کے لئے سنگین شرائط نہیں رکھے جانے چاہئے ۔ کسی اچھے کام میں وقت ضائع کئے بغیر پیشرفت ہوتی ہے تو امن کی امیدیں قوی ہوں گی ۔ دونوں جانب ایسے تلخ بیانات سے گریز کرنا چاہئے جس سے مذاکرات کی حکمت عملی متاثر ہوتی ہو ۔ مذاکرات کے ذریعہ اگر حکومت پاکستان امن کے تمام مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اس کا ہر گوشے سے خیرمقدم کیا جائے گا ۔ پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں نے طالبان مذاکرات کے لئے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کو پوری سنجیدگی سے مذاکرات کے عمل کو کامیاب حکمت عملی سے ہمکنار کرے ۔پاکستان میں ہر روز کسی نہ کے آنگن سے اُٹھنے والی نعشیں اور آہ و بکا کی صدائیں سن کر فضاء بھی مغموم و افسردہ ہورہی ہے ۔ لہذا حکومت پاکستان خاص کر وزیراعظم نواز شریف نے جو بھی قدم اٹھایا ہے اس کا خیرمقدم کیا جارہا ہے ۔
دہشت گردی اور قتل و غارت گری ایک معاشرہ کا ناسور ہوتی ہے ۔ اسے زیادہ مدت تک برداشت کرنے کامطلب جان لیوا خطرات کو دعوت دینا ہوتا ہے ۔ وزیراعظم نواز شریف کی مذاکرات کی پیشکش خلوص دل اور نیک نیتی پر مبنی ہے تو طالبان کو بلاتاخیر مذاکرات کی میز پر آکر امن کے قیام میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرنا ہوگا ۔ مذاکرات کے لئے تیاریوں کے درمیان دہشت گرد حملوں سے گریز کیا جائے تو بہتر ہے کیوں کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔