لکھنو ، 28 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) اترپردیش کے علاقہ بدایوں میں دو بہنوں کے قتل کے معاملے پر تازہ پیش رفت ہوئی ہے اور اب دونوں کے اہل خانہ نے نعشوں کو نکال کر ایک بار پھر پوسٹ مارٹم کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اہل خانہ نے یہ مطالبہ ایسے وقت کیا ہے جب حیدرآباد میں واقع لیباریٹری کی طرف سے کئے گئے ڈی این اے ٹسٹ میں لڑکیوں کی عصمت ریزی کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ حالانکہ قتل کے بعد مقامی ڈاکٹروں کی طرف سے کیے گئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں عصمت ریزی کی بات کہی گئی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عصمت ریزی کے بعد زندہ لڑکیوں کو درخت سے لٹکایا گیا تھا۔ معاملے کی تحقیقات مرکزی تفتیشی ادارہ ’سی بی آئی‘ کررہا ہے جس نے ڈی این اے رپورٹ کے بعد اب ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ معاملے کی تحقیقات مرکزی تفتیشی ادارہ ’سی بی آئی‘ کر رہا ہے جس نے ڈی این اے رپورٹ کے بعد اب ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سی بی آئی نے پوسٹ مارٹم کرنے والے مقامی ڈاکٹروں سے بھی ان کی رپورٹ اور تحقیقات کے بارے میں پوچھ گچھ کی ہے۔ ایجنسی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ پوسٹ مارٹم کی پہلی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔ لڑکیوں کے لواحقین بھی دوبارہ پوسٹ مارٹم کرانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ سی بی آئی نے ایک نئے میڈیکل بورڈ کی زیر نگرانی پھر پوسٹ مارٹم کرانے کی پیشکش کی تھی مگر جب دوبارہ پوسٹ مارٹم کرنے کی نوبت آئی تو لاشوں کو نکالنا ممکن نہیں ہو پایا۔ جس جگہ دونوں بہنوں کو دفن کیا گیا ہے وہاں دریائے گنگا میں طغیانی کے باعث قبریں کئی فٹ پانی کے نیچے جا چکی ہیں۔ گنگا کی سطح اب کم ہو رہی ہے لیکن نعشوں کے اتنے دنوں تک پانی کے اندر رہنے کے بعد تحقیقات میں اور بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ضلع کے پولیس افسر اس معاملہ میں کچھ بھی بولنے سے اس لیے انکار کر رہے ہیں کیونکہ تفتیش سی بی آئی کر رہی ہے، مگر مقامی پولیس کے ذرائع نے اشارہ دیا ہے کہ گنگا کی سطح گھٹتے ہی نعشوں کو نکالنے کا کام کیا جائے گا۔ سی بی آئی کی ترجمان کنچن پرساد نے ڈی این اے کی رپورٹ میں عصمت ریزی کی تصدیق نہ ہونے کی بات قبول تو کی ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ ایجنسی نے کسی کو الزام سے بری نہیں کیا ہے اور قتل کی تحقیقات جاری ہیں۔ سی بی آئی کو اس معاملے میں چارج شیٹ 25 اگست تک داخل کرنی تھی۔ چونکہ ایجنسی نے ایسا نہیں کیا ہے اس لیے معاملے میں ملزم نامزد کیے جانے والے پانچ افراد کے ضمانت پر رہا ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
لڑکیوں کے اہل خانہ کو ڈی این اے کی رپورٹ سے کافی مایوسی ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک کے والد سوہن لال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایجنسی کی طریقہ کار پر سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’جو کپڑے جانچ کے لیے بھیجے گئے تھے وہ ہماری بیٹیوں ہی کے تھے یا نہیں؟ اس پر اب شک ہورہا ہے۔‘ جن دو بہنوں کا قتل ہوا تھا ان میں سے ایک سوہن لال کے چھوٹے بھائی کی بیٹی بھی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی کا الزام ہے کہ سی بی آئی کے تفتیشی حکام نے نعشوں کے دوبارہ پوسٹ مارٹم کرانے میں بہت دیر کر دی جبکہ ان کا خاندان اس کا پہلے سے مطالبہ کر رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں: ’دیر کرنے کی وجہ سے ہی گنگا کا پانی چڑھ گیا اور قبریں پانی میں ڈوب گئیں۔ اب نعشوں میں کچھ بچا بھی نہیں ہوگ سب کچھ گل گیا ہوگا۔‘ سوہن لال اور ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ واقعہ کے بعد جب ملزمین کو پکڑا گیا تھا تو انھوں نے عصمت ریزی کرنے کی بات سب کے سامنے قبول کی تھی۔ وہ کہتے ہیںملزمین میں سے ایک پپو نے سب کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ وہ عصمت ریزی میں شامل تھا مگر اس نے قتل کرنے سے انکار کیا تھا، اب ڈی این اے رپورٹ پر کیسے اعتماد کیا جائے ۔جب ملزم نے خود عصمت ریزی کی بات قبول کر لی تھی؟‘ اس معاملے میں مجموعی طور پر پانچ ملزمین ہیں جن میں تین سگے بھائی پپو، اودھیش اور ارویش شامل ہیں جبکہ دو پولیس والوں کو بھی اس معاملے میں ملزم بنایا گیا ہے جن کی شناخت چھترپال اور سرویش کے طور پر کی گئی ہے۔