بجٹ : کھودا پہاڑ نکلا چوہا

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
بجٹ : کھودا پہاڑ نکلا چوہا
مرکز میں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں اپنا پہلا مرکزی بجٹ پیش کردیا گیا ۔ اس بجٹ کے تعلق سے جو ہوا کھڑا کردیا گیا تھا وہ بالکل غلط ثابت ہوا ہے اور ایسا واضح طور پر محسوس ہونے لگا ہے کہ ناتجربہ کار ہاتھوں نے یہ بجٹ تیار کیا ہے اور اس سلسلہ میں پہلے سے جو طریقہ کار ( یو پی اے حکومت کے بجٹ ) موجود تھا اسی کو اختیار کرتے ہوئے صرف اعداد و شمار میں معمولی رد و بدل کیا گیا ہے اور مابقی کوئی بھی ایسی اسکیم یا پروگرام شروع نہیں کیا گیا جس سے یہ محسوس ہوسکے کہ واقعی مرکز میں نئی حکومت قائم ہوگئی ہے ۔ ایک کام کے ذریعہ ضرور مرکز میں نئی حکومت کے قیام کا احساس ہونے لگا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سارا بجٹ کارپوریٹ گھرانوں کیلئے انتہائی سازگار اور موزوں بنادیا گیا ہے ۔ ایسا بجٹ پیش کیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں صرف کارپوریٹ گھرانوں اور تجارتی اداروں کو فائدہ حاصل ہوگا۔ حکومت کی جانب سے دفاع اور انشورنس کے شعبہ جات میں راست بیرونی سرمایہ کاری کی حد کو بڑھا کر 49 فیصد تک کردیا گیا ہے ۔ یہ شرح پہلے 26 فیصد تھی ۔ دفاع کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل اور حساس ہے اور اس شعبہ میںراست بیرونی سرمایہ کاری کی حد میں اضافہ کیلئے گذشتہ کئی برسوں سے مطالبات کئے جا رہے تھے ۔ ایک طاقتور لابی اس کیلئے مہم چلا رہی تھی لیکن سابق کی یو پی اے حکومت نے اس میں کسی طرح کا اضافہ کرنے سے گریز کیا تھا اور اب این ڈی اے حکومت نے اپنے قیام کے دو ماہ سے بھی کم وقت میں اس لابی کے دباؤ کو قبول کرتے ہوئے دفاع کے شعبہ میں راست بیرونی سرمایہ کاری کی حد میں اضافہ کردیا ہے ۔ یہ قومی سلامتی اور دفاع سے متعلق مسئلہ ہے اور اس پر حکومت کو پوری سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت تھی لیکن صرف وسائل کی کمی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مالیہ وصولی کی خاطر حکومت نے دفاع کے شعبہ کو بیرونی اداروں اور کمپنیوں کیلئے کھول دیا ہے ۔ یہاں بیرونی فرمس اورکمپنیوں کے داخلہ سے ہندوستانی کمپنیوں کی اجارہ داری متاثر ہوگی اور دفاعی پیداوار انٹرنیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں چلی جائیگی ۔ اس اندیشہ کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ان انٹرنیشنل کمپنیوں کا کنٹرول دنیا کی بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں بھی ہوسکتا ہے ۔
انشورنس کے شعبہ میں بھی مرکزی حکومت کی جانب سے راست بیرونی سرمایہ کاری کی حد میں اضافہ کردیا گیا ہے ۔ یہاں بھی بیرونی کمپنیوں کے داخلہ سے انشورنس کے شعبہ میں اتھل پتھل کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ حکومت کے اس فیصلے کے نتیجہ میں محنت کش طبقہ کے مفادات متاثر ہوسکتے ہیں ۔ نریندر مودی حکومت کی جانب سے گذشتہ دنوں میں بجٹ کے تعلق سے جو ہوا کھڑا کیا گیا تھا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ ارون جیٹلی لوک سبھا میں ایک بے مثال اور منفرد بجٹ پیش کرینگے ۔ اس بجٹ میں سماج کے ہر شعبہ اور طبقہ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے جادوئی اقدامات شامل رہیں گے ۔ تاہم جب ارون جیٹلی نے ایوان میں بجٹ پیش کیا تو ساری امیدیں ختم ہوگئیں ۔صرف کارپوریٹ طبقہ اس بجٹ سے خوش ہے اور اس توقع کا اظہار کرنے لگا ہے کہ مرکزی بجٹ میں شرح ترقی کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں سرمایہ مارکٹ میں تیزی آئیگی اور روزگار کے مواقع پیدا ہونگے ۔ تاہم کارپوریٹ شعبہ کا بھی ایک طبقہ یہ خیال ظاہر کرتا ہے کہ یہ بجٹ صرف مقبول عام بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس تعلق سے جو ملک بھر میں جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوسکی ہیں۔ بیرونی کمپنیوں اور ان کے نمائندوں کی جانب سے بھی اس بجٹ کا خیر مقدم کیا جارہا ہے کیونکہ ان کے خیال میں ان کیلئے اس بجٹ میں بہترین مواقع دستیاب ہوئے ہیں اور ہندوستانی مارکٹ میں انہیں اپنے قدم جمانے اور یہاں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے کا بھی موقع مل سکے گا ۔
عام آدمی کیلئے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے اس بجٹ میں کچھ بھی نہیں کیا ہے ۔ صرف ظاہری نمود کیلئے تنخواہ یافتہ طبقہ کے انکم ٹیکس استثنی کی حد کو دو لاکھ روپئے سے بڑھا کر ڈھائی لاکھ روپئے کردیا ہے جبکہ معمرین کیلئے استثنی حد کو ڈھائی لاکھ روپئے سے بڑھا کر تین لاکھ روپئے کردیا ہے ۔ راست طور پر اس بجٹ سے عام آدمی کو کوئی فائدہ پہونچنے کے امکانات کم سے کم ہیں اور یہ خیال بھی درست ہوسکتا ہے کہ بجٹ کے ذریعہ جب ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ہندوستان میں داخلہ ہوگا تو عام آدمی کیلئے مسائل اور پریشانیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بجٹ میں مہنگائی پر قابو پانے اور عام آدمی کو راحت پہونچانے کیلئے نہ کوئی منصوبہ پیش کیا گیا ہے اور نہ پروگرام ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس جانب حکومت نے کوئی توجہ ہی نہیں دی اور اس کا مطمع نظر صرف یہ تھا کہ کارپوریٹ طبقہ کو اپنے پہلے بجٹ سے مطمئن کیا جائے ۔