بالا پور میں اوقافی جائیدادوں کا کوئی پرسان حال نہیں

مسجد ، عیدگاہ ، قبرستان پر اپنوں کی کوتاہی سے غیروں کا قبضہ ، وقف بورڈ خاموش تماشائی
حیدرآباد ۔ یکم ۔ اگست : ( نمائندہ خصوصی ) : آزادی کے بعد سے ہندوستان میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر موقوفہ جائیدادوں کو دل کھول کر لوٹا گیا ۔ خاص طور پر آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں جہاں ہمدردان ملت نے اربوں روپئے مالیتی قیمتی اراضیات اللہ کے نام پر وقف کردی تھیں ان جائیدادوں کو نشانہ بنایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک مختصر عرصہ میں مسلمان بے شمار قیمتی اوقافی جائیدادوں سے محروم ہوگئے ۔ آج حالت یہ ہے کہ شہر اور اطراف و اکناف کے علاقوں میں اوقافی جائیدادوں کا وجود بڑی تیزی سے مٹتا جارہا ہے ۔ خواہ وہ مسجد کی اراضی ہو یا پھر درگاہوں کے تحت موقوفہ جائیداد ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہورہاہے ؟ وقف بورڈ کے ہاتھوں سے قیمتی اراضیات کس طرح نکلتی جارہی ہیں ؟ آج ہم ایک بار پھر آپ کو ایسے وقف اراضیات کی تباہی کی اطلاع دے رہے ہیں جن پر بتدریج غیر مسلموں کا قبضہ ہوتا جارہا ہے ۔ یہ تباہی حافظ بابا نگر اور بارکس کے قریب یعنی شہر سے متصل علاقہ بالا پور میں ہورہی ہے ۔ جہاں مسجد ، عیدگاہ ، قبرستان ، دو گنبدیں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ وقف جائیداد پر سیندھی خانہ ( شراب خانہ ) قائم کرتے ہوئے وقف اراضیات کو لوٹا جارہا ہے ۔ بالا پور کے قریب رہنے والے مسلمانوں کا سیاست سے رجوع ہونے پر ہم نے وہاں کا دورہ کیا جہاں پتہ چلا کہ قطب شاہی دور کی ایک مسجد عرصہ دراز سے غیر آباد ہے اور یہاں بھینسوں کو باندھا جارہا ہے ۔ یہ اس قدر خستہ حالت میں ہے کہ شرپسند اس تاک میں ہے کہ یہ کب گر جائے اور وہ اس پر قبضہ کرلے ۔ اسی طرح یہاں پر ایک قدیم عیدگاہ موجود ہے جو 38 گنٹہ اراضی پر محیط ہے ۔ یہاں پچھلے 20 سال سے نماز عید ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ سنجیوا ریڈی نامی ایک مقامی شخص کا دعویٰ ہے کہ یہ عیدگاہ ان کے دادا کی بنائی ہوئی ہے ۔ اس شخص نے عیدگاہ کے اطراف پلاٹنگ کرتے ہوئے ایک کالونی بنادی ہے جس کا نام اس نے رگھو ہومس کالونی رکھا ہے ۔ یہ اکثر عیدگاہ میں بھینس باندھ کر رکھتا ہے ۔ چونکہ بالا پور ایک سو فیصدی غیر مسلم علاقہ ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ اس عیدگاہ کے ٹھیک پیچھے ایک بہت بڑا گڈھا کھودا گیا ہے جس میں کافی مقدار میں پانی جمع ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ عیدگاہ مزید کمزور ہو کر گر جائے اور وہ اس پر بھی پلاٹنگ کردے ۔ اس کے علاوہ یہاں قطب شاہی دور کی 400 سالہ دو بڑی گنبدیں موجود ہیں جس کے اطراف 6 ایکڑ 18 گنٹے اراضی وقف گزٹ میں درج ہے ۔ یہاں پر لکشمی ریڈی نامی شخص کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کی اراضی ہے ۔ اس دورے کے دوران ہم نے دیکھا کہ اس گنبد کے اطراف بلدیہ کا سارا کچرا لا کر ڈمپ کیا جارہا ہے ۔ اسی طرح بالا پور کا قدیم قبرستان جس کا رقبہ ایک ایکڑ 10 گنٹے ہے پر قبضہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ یہاں پر بھی ایک غیر مسلم صاحب کا دعویٰ ہے کہ یہ اراضی انہوں نے خرید لی ہے اور اب یہ صاحب قبروں پر مٹی ڈال کر اسے مسطح کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اس قبرستان کی بھی پلاٹنگ کی جاسکے ۔ دوسری طرف بالا پور کا سیندھی خانہ ( شراب خانہ ) ہے جہاں550 گز اراضی موقوفہ ہے ۔ حالانکہ وقف بورڈ بار بار اس کو نوٹس بھیجتا رہا ہے مگر یہ شخص نوٹس وصول ہی نہیں کرتا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس موقوفہ اراضی پر اس سیندھی خانہ کا 20 سال سے قبضہ ہے ۔ اسی طرح بالا پور میں کروڑہا روپئے مالیتی موقوفہ اراضیات کو دن دہاڑے لوٹا جارہا ہے ۔ مگر اس کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی جارہی ہے ۔ اس سے پہلے بھی اس کی خبر سیاست میں شائع ہوئی تھی جس کے بعد اس وقت کے صدر نشین خسرو پاشاہ نے 28 مارچ 2012 کو دورہ کیا تھا مگر کوئی ٹھوس اقدامات نہ ہونے سے لینڈ گرابرس کے حوصلے بلند ہوگئے اور آج یہ پوری موقوفہ اراضیات غیر مسلموں کے قبضہ میں ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹی آر ایس حکومت اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں کس قدر سنجیدہ ہے ؟ تاہم آپ تصاویر کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جانوروں کو بدستور مسجد ، عیدگاہ اور قبرستان میں باندھا جارہا ہے ۔ اور اللہ کے گھر کی کیا حالت ہوگئی ہے اور وقف بورڈ یا اور کوئی ذمہ دار فرد اس بے حرمتی پر آنسو بہانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے ۔۔