ظالمانہ تجارت کے خاتمہ کے لیے منظم حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی ضرورت
حیدرآباد۔20مئی (سیاست نیوز) شہر حیدرآباد میں ماہ رمضان المبارک کے پہلے دہے کے اختتام کے ساتھ ہی بازاروں میں گہما گہمی کی شروعات اور سود خوروں کی سرگرمیاں دونوں ہی فروغ پانے لگتی ہیں کیونکہ شہر کے بازاروں میں چھوٹے تاجرین ماہ رمضان المبارک کے دوران ان خانگی سود خوروں سے بھاری سود پر قرض حاصل کرتے ہوئے کاروبار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں کسی بینک یا کارپوریشن سے تجارت کے لئے کوئی قرض منظور نہیں کیا جاتا اسی لئے وہ ان خانگی سود خوروں سے بھاری سود پر قرض حاصل کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔شہر حیدرآباد بالخصوص پرانے شہر میں یہ مسئلہ آج کا نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کئی برسوں سے اس مسئلہ پر توجہ مبذو ل کر وائی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود اس مسئلہ کے حل کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے بلکہ چند برسوں تک تو پرانے شہر میں ساؤتھ زون پولیس کی جانب سے ماہ رمضان المبارک کے دوران سود خوروں کے چنگل میں نہ پھنسنے اور ان کی ہراسانی کا شکار افراد کو راست ربط پیدا کرنے کی مہم چلائی جاتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اب تک یہ سرگرمیاں شہر میں جاری ہیں اور ان سرگرمیوں کے خاتمہ کے لئے منظم حکمت عملی اور منصوبہ بندی کئے جانے کی ضرورت ہے لیکن اس سلسلہ میں ذمہ داروں کی جانب سے اختیار کئے جانے والے موقف سے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ انہیں سود پر قرض حاصل کرنے والوں سے نہیں بلکہ سود پر قرض فراہم کرنے والوں سے ہمدردی ہے اسی لئے وہ سود خوروں کو اس حرام اور ظالمانہ تجارت کی کھلی چھوٹ فراہم کئے ہوئے ہیں ۔شہر حیدرآباد و سکندرآباد کے بیشتر بازاروں میں ماہ رمضان المبارک کے دوران خصوصی طور پر کاروبار کرنے والے چھوٹے تاجرین خانگی سود خوروں سے قرض حاصل کرتے ہوئے اس ماہ مبار ک میں کچھ آمدنی میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بسا اوقات سود پر حاصل کی گئی اس رقم کا قرض سال بھر ادا کرتے رہتے ہیں لیکن اس کی ادائیگی مکمل نہیں ہوتی۔خانگی سود خوروں کے مسئلہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے محکمہ پولیس کے اعلی عہدیداروں کا کہناہے کہ سب سے پہلے ان سود خوروں کو حاصل سیاسی پشت پنا ہی کا خاتمہ ہونا چاہئے کیونکہ سیاسی پشت پناہی کے سبب وہ اپنی من مانی کرتے ہیں اور انہیں قانون کا بھی خوف نہیں رہتا اس کے علاوہ چھوٹے تاجرین کو سرکاری اداروں اور بینکوں کے ذریعہ قرض کی فراہمی کے اقدامات کو یقینی بنائے جانے کی صورت میں خانگی سود خوروں کی من مانی کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے لیکن ایسا کرنے کیلئے بینکوں اور اداروں کو اس بات کیلئے راضی کرنا پڑتا ہے کہ وہ چھوٹے تاجرین اور ٹھیلہ بنڈی رانوں کو قرض کی فراہمی کے اقدامات کریں۔