روشنی کی خاطر اب معرکہ بھی ہونا ہے
اور زخم کھانے کا فائدہ بھی ہونا ہے
بارہمولہ فدائین حملہ
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اُری دہشت گرد حملہ، ہندوستانی فوج کا سرجیکل اسٹرائیک کے بعد بارہمولہ کے فوجی کیمپ پر دہشت گردوں کے فدائین حملے نے نازک صورتحال کو مزید تشویشناک بنادیا ہے۔ اس حملے میں دو جوان ہلاک اور دیگر کے زخمی ہونے کی خبروں نے وادی کشمیر کے عوام کے ساتھ ملک بھر کے لئے فکر کا باعث بنادیا ہے۔ بارہمولہ بی ایس ایف کیمپ اور اس سے متصل 46 بٹالین راشٹریہ رائفلس کیمپ پر حملے کئے گئے۔ ہندوستان کے حالیہ سرجیکل اسٹرائیک دعویٰ کے بعد دہشت گرد حملوں کا اندیشہ قوی ہوگیا تھا۔ اس کے باوجود سکیورٹی والے علاقوں تک دہشت گردوں کو رسائی حاصل ہورہی ہے تو یہ غور طلب امر ہے۔ وادی کشمیر تین خطوں پر مشتمل ہے۔ ان میں جموں اور لداخ کا علاقہ بھی پاکستان کی سرحد سے وسیع طور پر ملتا ہے، خاص کر جموں کی پاکستان کے ساتھ سب سے طویل سرحد یعنی تقریباً 500 کیلومیٹر ہے۔ اتنی بڑی سرحد والے علاقہ جموں میں کوئی دہشت گرد کارروائی نہیں ہوئی بلکہ دہشت گردوں کا اصل نشانہ صرف کشمیر کے علاقہ ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک غور طلب مسئلہ ہے۔ سرحدی چوکسی ، فوجی تعیناتی اور طاقتور فورس کی موجودگی کے باوجود دہشت گرد اپنی کارروائیاں انجام دینے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ ایل او سی پر بلااشتعال فائرنگ کے واقعات کے درمیان ہندوستان کا ادعا جب اقوام متحدہ کی جانب سے مسترد کردیا جائے کہ اس نے سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی جو بات کہی ہے، وہ قابل قبول نہیں ہے تو پاکستان کو بھی ایک بہانہ مل گیا۔ اس نے اقوام متحدہ کی جانب سے سرجیکل اسٹرئیک کے دعویٰ کو مسترد کردینے کے بعد صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ سرحد کو اپنے نمائندے روانہ کرکے یہ تصدیق کرنے کی کوشش کی کہ یہاں کی بنیادی صورتحال مختلف ہے۔ پاکستان کی یہ دعویٰ بھی کہ اس علاقہ میں ہندوستانی فورسیس کا داخلہ ناممکن ہے۔ جنگلات کے علاقہ میں کس طرح کی حمل و نقل ہو اور پاکستانی فوج کو اس کا علم نہ ہونا بھی قابل فہم بات نہیں ہے۔ پاکستان اور اقوام متحدہ کی جانب سے ہندوستان کے ادعاجات کو مسترد کردیئے جانے کے بعد اندرون ملک سیاسی کیفیت میں تبدیلی آنا ضروری ہے۔ فوج نے پاکستان اور اقوام متحدہ کے خیال کو غلط ثابت کرنے کے لئے اپنے سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت میں فلم ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے، مگر اپنے دعویٰ کی حمایت میں ہندوستانی فوج نے ابھی تک کوئی تصویر جاری نہیں کی۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ بھی سرحدی صورتِ حال سے پوری طرح واقف نہیں ہوسکے۔ کسی واقعہ کی مکمل تصدیق کئے بغیر اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارہ کے ایک نمائندہ کو بیان جاری کرنے سے پہلے احتیاط کرلینا چاہئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 2003ء سے سرحدی جنگ بندی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف فائرنگ کے تبادلے ہوتے ہیں تو یہ معاہدہ کی روح کے مغائر ہیں۔ اری دہشت گرد حملے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان لفظی جنگ نے بھی ماحول کو کشیدہ اور نازک بنادیا ہے۔ سرحد پر ہونے والی فائرنگ کے واقعات کی نگرانی عالمی ادارہ کا کوئی نمائندہ نہیں کرتا۔ ایسے میں اقوام متحدہ کا فوجی آبزرور گروپ ہندوستانی فوج کے اس دعویٰ کو کس طرح مسترد کرسکتا ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک نہیں ہوا ہے۔ مرکز کی مودی حکومت کو ملک کے اندر کسی قسم کا سوگوار ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ اُری حملے اور ہندوستانی فوج کے سرجیکل اسٹرائیک کے بعد ہندوستان کے اندر بعض سیاسی، سماجی اور میڈیا گروپ کے لوگ ہیجان پیدا کرتے ہوئے ماحول کو مکدر کرنے کی سازش میں مصروف ہیں۔ اس سے واقعات نازک رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو استعمال کرتے ہوئے چین نے جس طرح پاکستان کی تنظیم ’’جیش محمد‘‘ کے سربراہ کے خلاف کارروائی کو روک دینے کی کوشش کی ہے، اس ایک دکھائی دینے والی کوشش نے موجودہ حالات کا ایک مضبوط اشارہ دے دیا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کو اپنے پڑوسی ملک پاکستان کی حکومت اور وہاں کے عوام کے بارے میں مشکوک رائے قائم کرنے سے پہلے اس کی مضبوط اور معتبر تصدیق کرنی ضروری ہے۔ یہ بات ذہن میں آنی چاہئے کہ ہندوستان کا پڑوسی ملک چین بھی حصول مقصد کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔