بارک اوباما کا دورہ ہندوستان

ہیں سیہ کارنامے گران کے‘ میری بدنام ہے سیہ بختی
ہے نتیجہ اسی کا اے لوگو‘ تیرہ وتار ہے مری دنیا
بارک اوباما کا دورہ ہندوستان
امریکہ کے صدر بارک اوباما ہندوستان کے تاریخی دورہ پر نئی دہلی پہونچ چکے ہیں۔ ہندوستان میں آمد پر ان کا شایان شان استقبال کیا گیا اور انتہائی گرمجوشی سے انہیں ہندوستان کی مہمان نوازی کا احساس دلایا جا رہا ہے ۔ مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں قائم ہوئی این ڈی اے حکومت نے اپنے اقتدار پر آنے کے بعد پہلی مرتبہ یوم جمہوریہ تقریب میں صدر امریکہ کو مدعو کیا ہے ۔ اوباما نے بھی اس دعوت کو فوری طور پر قبول کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کا عملا اعتراف کیا ہے ۔ اوباما کا یہ دورہ اس لئے بھی منفرد اور تاریخی کہا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنہیں یوم جمہوریہ تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی مدعو کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ ایسے پہلے امریکی صدر ہیں جو اپنے دور اقتدار میں دوسری مرتبہ ہندوستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے جتنے بھی امریکی صدور ہندوستان آئے وہ اپن معیاد میں صرف ایک مرتبہ ہندوستان آئے ہیں۔بارک اوباما عالمی سطح پر ہندوستان کی ابھرتی ہوئی طاقت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہندوستان آئے ہیں اور و ہ جس جوش و خروش کے ساتھ ہندوستان آئے ہیں اس کا ان کے انداز سے پتہ چلتاہے ۔ ہندوستان آمد کے بعد ان کی وزیر اعظم نریند رمودی کے ساتھ باہمی بات چیت بھی ہوئی ہے اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ امریکہ سیول نیوکلئیر معاملت پر مزید پیشرفت کر رہا ہے ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہندوستان میں کچھ گوشوں کو تحفظات رہے ہیں ۔ یہ تحفظات قومی مفادات کی وجہ سے رہے ہیں اور حکومت ہند کو ان مفادات کا خیال رکھنے کی ضرورت تھی ۔ تاہم یہ احساس اپنی جگہ بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا کہ سیول نیوکلئیر معاملت پر ہندوستان کی جانب سے پیشرفت امریکہ کے دباؤ کا نتیجہ ہے ۔ حالیہ عرصہ میں دونوں ملکوں کے مابین جس طرح سے تعلقات میں اچانک سے بہتری اور پیشرفت ہونی شروع ہوئی ہے اس کی رفتار پر سوال اٹھتے ہیں۔ ہندوستان جس تیزی کے ساتھ امریکہ کے ساتھ ماضی کے اختلافات یا اختلاف رائے کو فراموش کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے وہ قابل غور ہے ۔ حکومت کو یقینی طور پر امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مستحکم اور مضبوط بنانا چاہئے لیکن اس کیلئے اپنے مفادات ترک کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔
قومی سلامتی اور قومی مفادات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندوستان کے عوام اسے قبول بھی نہیں کرینگے ۔ گذشتہ عرصہ میں یہ بات بھی خاص طور پر محسوس کی گئی ہے کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر امریکہ اثر انداز ہورہا ہے ۔ ہندوستان کے کئی فیصلے عالمی منظر نامہ کے تعلق سے ایسے ہیں جو امریکہ کے موقف سے میل کھاتے ہیں۔ یہ فیصلے یقینی طور پر امریکہ کے دباؤ میں کئے گئے ہیں اور دباؤ میں کئے گئے فیصلے قومی مفاد میں ہرگز نہیں ہوسکتے ۔ یہ امریکہ کا دباؤ ہی تھا کہ ناوابستہ تحریک دم توڑ گئی ہے ۔ سارک کا اثر بھی بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے حالانکہ بظاہر اس کا استحکام غیر متاثر ہے ۔ علاوہ ازیں امریکہ کو ہندوستان کا برکس ممالک کے ساتھ تال میل بھی ایک حد سے زیادہ قبول نہیں ہے ۔ اسلامی دنیا کے تعلق سے ہندوستان کی قدیم اور روایتی پالیسی بھی امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے بدلتی جا رہی ہے ۔ ہندوستان نے حالانکہ ابھی فلسطینی مملکت کے کاز کو عملا ترک نہیں کیا ہے لیکن یہ صرف زبانی حد تک رہ گیا ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے جس طرح کے قریبی تعلقات بنتے جا رہے ہیں وہ فلسطین کے کاز کیلئے مضر ہیں۔ دفاعی شعبہ میں جس سطح پر اسرائیل کے ساتھ روابط بن گئے ہیں وہ خود اس کا ثبوت ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بدلتے ہوئے تناظر میں ہندوستان بھی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کر رہا ہے لیکن یہ تبدیلی اپنے طور پر ہوتی تو اس کو قبول بھی کیا جاتا لیکن خارجہ پالیسی کی بیشتر تبدیلیاں امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے ہوئی ہیں ۔
اب جبکہ بارک اوباما ہندوستان کے دورہ پر آئے ہوئے ہیں اور امریکہ سے ہندوستان کے تعلقات مزیدمستحکم ہوتے جا رہے ہیں تو ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت یقینی طور پر امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے کیونکہ دونوں ممالک دنیا کی دو بڑی جمہوریتیں ہیں اور ان کی دوستی کا جواز بھی ہے تاہم امریکہ کے ساتھ تعلقات دوسرے ممالک یا تنظیموں کے ساتھ مراسم اور تعلقات کی قیمت پر نہیںہونے چاہئیں۔ ہندوستان ایک طاقتور ملک ہے اور دنیا بھر میں اس کی طاقت اور اس کی اہمیت کو قبول کیا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال میں اگر ہندوستان ‘ امریکہ کے اشاروں پر کام کرنے لگے تو اس کی اپنی اہمیت اور شناخت گھٹنی شروع ہوجائیگی اور ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے ۔ اکیسیوں صدی کو ہندوستان کی صدی بنانا ہے اور ہندوستان ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اسے کسی دوسرے کا سہارا لینے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے ۔