بابری مسجد مسئلہ کے حل کا منصفانہ فارمولہ

بابری مسجدکا مسئلہ عرصہ درازسے معرض التوامیں ہے،یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بابری مسجدکوتعمیر ہوئے پانچ سوسال سے زائد کا زمانہ گزرچکا،اسکی تاریخ تعمیر ۱۵۲۸؁ء ہے۔۲۲؍ڈسمبر۱۹۴۹؁ء تک اس مسجدمیں باجماعت نمازاداکی جاتی رہی ہے یہاں تک کہ ۲۲؍اور۲۳؍ڈسمبرکی درمیانی شب میں چوری چھپے مورتیاںرکھنے کے دن تک بھی مسلمانوں نے عشاء کی نمازباجماعت اداکی ہے۔اس واقعہ کے بعد بابری مسجدمسئلہ پولیس اورعدالت تک پہنچ گیا،پھرعدالت نے مسجدکوتالالگادینے کا حکم صادرکردیا۔۱۹۸۶؁ء میں سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے کچھ سیاستدانوں نے عدالت کے فیصلہ کی بنیادپر قفل کھلوادیا،مسلمانوں کو نماز اداکرنے کی اجازت تونہیں مل سکی لیکن ہندوں کیلئے مورتیوں کی پوجاکا راستہ ہموارہوگیا۔بالآخر۶؍ڈسمبر  ۱۹۹۲؁ء بابری مسجدظلماً شہید کردی گئی،دن دھاڑے سب کی آنکھوں میں دھول جھونکرمسجدکی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی،ایک جمہوری ملک میں کھلی غنڈہ گردی اوردہشت گردی مچائی گئی جوتاریخ کا سیاہ ترین باب اورسیکولرملک کی پیشانی پرایک بدنما داغ ہے۔مسجدکی شہادت کے بعدمندرکا عارضی ڈھانچہ تیارکرلیا گیا،تقریبا ۶۷؍سال سے زائد کا عرصہ ہورہاہے جہاں سے اذان کی صداگونجتی تھی اورمعبودحق کے آگے سجدہ ریزہوکرجہاں مسلمان عبادت وبندگی بجالا تے تھے اب وہاں ظلم وجبرکی راہ سے گھنٹوں کی آوازگونج رہی ہے اورمعبودان باطل کی پوجا پاٹ کا سلسلہ جاری ہے۔بابری مسجدکی مختصرداستان غم یہ ہے کہ رام جنم بھومی کی جھوٹی کہانی گھڑکرمسجدکوہتھیالیا گیاہے،اس کا کوئی ٹھوس ثبوت ہندوبرادران وطن دعویداروں کے ہاں نہیں ہے کہ بابری مسجدکسی مندرکوتوڑکر تعمیر کی گئی ہے،اورنہ ہی رام کے اس جگہ پیداہونے کا کوئی ثبوت موجودہے،صرف ہٹ دھرمی اورزیادتی کی بنیادپریہ غیر انسانی وغیر قانونی مہم جاری ہے ۔بابری مسجدملکیت کا مقدمہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیردوراں ہے،جمہوری ملک کی عدالت عظمی سے یہی توقع ہے کہ وہ دستوراورآئین کے مطابق فیصلہ سناکرعدالت عظمی کی ساکھ پرآنچ آنے نہیں دیگی،اوراسی سے جمہوری ملک کا کھویا ہواوقاردوبارہ بحال ہوسکتاہے۔ ایسے میں بیرون عدالت بابری مسجدکے مسئلہ کے حل کی سری سری روی شنکرجی جوکوشش کررہے ہیں ہوسکتاہے وہ ان کی نیک نیتی پر مبنی ہولیکن بیرون عدالت اگراس قضیہ کو حل کرناہی بہترسمجھا رہاہوتویہ فارمولہ ہی کیوں طے کرلیا گیاہے کہ بابری مسجد ہندوبرادران وطن کے حوالے کردی جائے اورمسلمان اس سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے اسکے معاوضہ میں دی جانے والی دوسری جگہ مسجدکی تعمیر کرلیں۔من وعن اس فیصلہ پرعمل آوری کیلئے ہندوستان کے عظیم علمی خانوادے سے نسبت رکھنے والے ایک باوقارعالم دین بھی میدان عمل میں کودپڑے ہیں،مسلم پرسنل لا بورڈ جومسلمانوں کے تمام مسالک کا نمائندہ ادارہ ہے ، وہ اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکرجس بات پر متفق ہیں وہ یہی ہے کہ مسجد ویران ہوجائے تب بھی تاقیام قیامت وہ مسجد ہی رہتی ہے ۔ظاہر ہے جس کام کی اسلام اجازت نہیں دیتا اورمسلمان اسلامی حمیت وغیرت کی وجہ جس کا سودانہیں کرسکتے ، بزوروجبرایسے غیر منصفانہ فارمولے کومسلمانوں پرمسلط نہیں کیا جاسکتا۔اسلام حق وانصاف کا علمبردارہے وہ کبھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ غیر کی زمین پراللہ کا گھر(مسجد)تو کیا کوئی مسلمان اپنی رہائش کیلئے بھی کوئی مکان تعمیر کرلے،غیر کی زمین کو غصب کرلینا اسلام میں کبیرہ گناہ ہے اوریہ حق عبد(انسان کا حق)ہے جو اس کے معاف کئے بغیر اللہ کے ہاں معاف نہیں ہوسکتا۔ اسلامی احکام کی روسے مسلمان توکسی ناجائززمین پرمسجدتعمیر کرنے کا تصوربھی نہیں کرسکتے،بابری مسجدکی زمین پر صحیح ودرست دستاویزی ثبوت وشواہدکی بنیادپرمندرکا وجودیا’’ رام‘‘ کا وہاں پیدا ہوناثابت ہوجائے پھریہ بھی ثابت ہوجائے کہ شہنشاہ بابر یا انکے وزیر میر باقی نے اس زمین کو خریدا نہیں تھا بلکہ غصب کرکے مسجدتعمیر کرلی تھی تومسلمان اسلامی احکام کی رو سے غیر مسلم بھائیوں کوواپس کردینے کے پابندہیں،مسلمان نہ کسی غیر کی زمین پراسکی اجازت یا اسکو برضا ورغبت خریدے بغیرمسجدتعمیر کرسکتاہے نہ مسجد کی زمین کسی اورکودے سکتاہے ۔ بابری مسجد کی زائد ازپانچ سوسالہ تاریخ میں ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوسکااورآئندہ بھی ایسا کوئی ثبوت ہندوبھائیوں کی مذہبی کتابوں یا تاریخی حوالوں یا ہندومذہبی رہنماؤں اوررام بھگتوں کی کسی کتاب سے ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتاجوان کے دعوے کی تصدیق کرسکے۔اس تناظرمیں بیرون عدالت کوئی قابل عمل حل تلاش کرنا سیکولرملک ہندوستان کے مفادمیں ہوسکتاہے تووہ یہی ہوسکتاہے کہ بابری مسجداوراسکی موقوفہ اراضی مسلمانوں کے حوالے کردی جائے جواصلاً وقانونا ًان کا حق ہے،سری سری روی شنکرجی کا تعلق فکری ونظریاتی اعتبار سے غیر مسلم برادران وطن سے ہے اورپھروہ ان کے مذہبی رہنما بھی ہیں،کوئی مذہب کسی پر نارواظلم کرنے اورکسی بھی مذہب کی عبادت گاہ تو کیا کسی ملک کے شہری کی املاک کو نقصان پہنچانے یاغصب کرلینے کی اجازت نہیں دیتا،ہندودھرم کے ماننے والے بھی اس بات پریقین رکھتے ہیں کہ ہندو مذہبی تعلیمات اوران کی مذہبی کتابیں ’’ویدک‘‘ اور’’شاستر‘‘وغیرہ عدل وانصاف کا خون کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ہندومت کے پیشوایان مذاہب بھی بشرطیکہ وہ ہندومذہب کے صحیح ترجمان ہوںہندو مذہب کی تعلیمات کے خلاف ظلم وزیادتی کوگوارہ نہیں کرسکتے۔نہ بابری مسجد کو مندربنا نے سے اتفاق کرسکتے ہیں، اور ہمارے ملک کا دستوربھی اس کی حمایت نہیں کرتاتو پھرروی شنکرجی کو چاہیئے کہ وہ اپنے موجودہ فارمولے (بابری مسجدرام مندرکی تعمیر کیلئے برضاورغبت دیدی جائے اوراسکے معاوضہ میں دوسری کسی جگہ زمین قبول کرکے وہاں مسجد تعمیر کرلی جائے)کوتبدیل کرلیں۔اورتازہ مہم یہ چلائیں کہ مذہبی ،سماجی،انسانی ،اخلاقی کسی بھی جہت سے بابری مسجداوراسکی اوقافی اراضی پرغیر مسلم بھائیوں کا ظالمانہ قبضہ غصب ہے جوباطل، عدل وانصاف کے مغائر،انسانیت کوشرمسارکرنے والا اورہمارے جمہوری ملک کے سیکولرکردارکوداغدارکرنے والا ہے۔ہر مذہب احترام انسانیت اوردیگرتمام مذاہب اوران کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی تلقین کرتاہے،اوریہ بات بھی ان کو سمجھائیں کہ مسلمانوں کاایمان وعقیدہ سے جڑا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان کا مذہبِ اسلام مسجدکو مقدس مانتاہے،ایک مرتبہ جب مسجد بن جائے تواس کو کسی اوردرست و جائز مقصد میں تبدیل کرنے کی بھی اجازت نہیںدیتا(فتاوی مہدیہ:۲؍۴۶۸) چہ جائیکہ مسجدیا مسجدکی موقوفہ اراضی کسی باطل مقصد کی تکمیل کیلئے دیدی جائے۔ہندوستان میں مسلمانوںنے ہزاروں سال حکومت کی ہے لیکن انہوں نے ہمیشہ غیر مسلم برادران وطن کی عبادت گاہوں کا نہ صرف تحفظ کیا بلکہ ان کا جاگیرات وعطایاجات سلطانی سے بھرپورتعاون کیا۔اوراب جوحکومت ہندوستان میں برسراقتدارہے وہ کوئی شخصی یا خاندانی ہندوراجہ مہاراجہ کی نہیں ہے بلکہ خالص جمہوری  وسیکولرروایات کی حامل حکومت ہے ،اگریہ جمہوری ملک نہ ہوتابلکہ خالص ہندومذہبی ملک ہوتاتب بھی ہرگزیہ بات منصفانہ اورانسانی اقدارپرمبنی نہ ہوتی کہ دین دھرم اورانسانیت کے خلاف مسلمان رعایہ کی عبادت گاہ دہشت گردی کا ماحول بناکرشہید کردی جائے اوراسکی زمین پرجبرا مندرتعمیر کرلینے کا منصوبہ تیارکرلیا جائے ، ہندوبرادران وطن کوان حقیقت پسندانہ ومنصفانہ حقائق سے واقف کروایا جائے، بابری مسجد کے قضیہ کے منصفانہ حل کیلئے ہندوبرادران وطن کوہندوانہ مذہبی تعلیمات، انسانی اقدار اورحق وانصاف پر مبنی دلائل سے ان کی ذہن سازی کی جائے اوراس کام کی انجا م دہی میں اور سیکولرکردارکے حامی منصف مزاج ہندومذہب کے سوامیوں اورپڑھے لکھے ملک سے سچی محبت رکھنے والے اورملک کے نفرت زدہ ماحول کوپیارومحبت کی فضاء میں تبدیل کرنے کا سچا جذبہ رکھنے والے غیر مسلم قائدین اوررہنمائوں پرمشتمل ایک بورڈ تشکیل د یا جائے ،مناسب خیال کریں تو اس بورڈ میں ملک کے مسلم زعماء واکابرعلماء کو بھی نمائندگی د ی جائے۔ اوریہ بورڈ اس بات کی سنجیدہ کوشش کرے کہ ملک میں صرف ووٹ بنک مضبوط کرنے کیلئے نفرت کا تخم بوکربھائی چارہ کی فضاء کومکدرکرنے والوں کے برخلاف محبت وبھائی چارہ کی فضاء عام ہو،اوربابری مسجد سے متعلق غیر منصفانہ فارمولے کے بجائے منصفانہ فارمولے پربرضاورغبت عمل کیلئے غیر مسلم مذہبی رہنما،سیاسی قائدین اورغیر مسلم بھائی تیارہوں۔اگراس میں وہ کامیاب ہوجاتے ہیںتوہمارے ملک کا سیکولر کردارپھر سے بحال ہوسکتاہے اور’’حق بحق داررسید‘‘ کا مقولہ صادق آسکتاہے۔اورہمارے ملک کے وہ مؤقرعالم دین جوملک میںامن وآمان کی برقراری کی جذبہ سے سری سری روی شنکرجی کے پہلے فارمولے کے حامی ہیں انکوچاہے کہ بابری مسجدسے متعلق سابقہ فارمولے کے بجائے اس دوسرے منصفانہ فارمولے پر عمل آوری کیلئے نہ صرف ان کو تیارکریں بلکہ پورے ملک یہاں تک کہ امریکہ ،یوروپ اورپوری دنیا کی عوام تک اس پیغام کوپہنچائیں اور تمام ہند و برادری کو اس منصفانہ فارمولے پر عمل کیلئے راضی کرلیں تاکہ سپریم کورٹ کے ججس جویقین ہے بابری مسجدکی ملکیت کے فیصلہ میں حق وانصاف کے مطابق فیصلہ دیں گے ان کو حق وانصاف کے مطابق فیصلہ دینے میں اس طرح کا اپنا سیکولر تعاون مہیا کریں ۔دستوروقانون ،مذہبی اقداروروایات، انسانیت اورتمام مذاہب کے احترام ،عدل وانصاف کے تقاضوں کوپوراکرنے ہی سے مضبوط اورپائیدارامن وامان کا قیام ممکن ہے۔ایک عالمی اصول پہلے سے متعین ہے جوتمام انسانوں کے درمیان انسانوں کے احترام اوران کے مذہبی مقدسات کے تحفظ پر مبنی ہے،متحدہ طورپراس اصول کوعملا مستحکم کرنا موجودہ حالات میں ازحد ضروری ہے تاکہ سارے عالم میں انسانی بھائی چارہ ،پیارومحبت اورامن وامان کی فضاء قائم رہے،کوئی طاقتورفردیا کوئی طاقتورقوم کسی کمزورفردیا کمزورقوم پر ظلم نہ ڈھاسکے ۔ ظلم ہوتارہے ،کوئی ٹوکنے والا بھی نہ ہویاانسانیت پر مبنی کسی عالمی اصول کی پابندی لازم نہیں کرلی گئی ہو اورانسانی واخلاقی اقدارکا تعین اوران پرسختی سے عمل آوری کویقینی نہیں بنایا جاسکاہو توپھرکسی مذہب کی بھی عبادت گاہ محفوظ نہیں رہ سکے گی،انسانی احترام پامال ہوتارہے گا،اعلی اخلاقی قدریں دم توڑتی رہیں گی،عصمتیں لٹتی رہیں گی،معصوم جانیں ضائع ہوتی رہیں گی،کھیت کھلیان ،باغات وچمنستان اجڑتے رہیں گے،اوردنیا میں حق کے بجائے طاغوتی طاقتیں مضبوط ومستحکم ہوتی جائیں گی ،عدل وانصاف کے بجائے ظلم وجورکا چلن عام ہوتاجائے گا۔ امیر المومنین سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنائے جانے کے بعد جوانسانی اقداراورضعیفوں ،کمزوروں اورمظلوموں کی حمایت پر مبنی خطبہ ارشادفرمایا اس میں ایک انسانیت نوازپیغام یہ بھی دیا’’تم میں سے ضعیف لوگ میرے نزدیک اس وقت تک قوی ہیں جب تک میں انکا حق ان کو نہ دلوادوں(ان شاء اللہ)اورتمہارے طاقت وقوت رکھنے والے میرے نزدیک ضعیف ہیں جب تک کہ میں ان سے دوسروں کا حق جووہ غصب کربیٹھے ہیں حقداروں کو واپس نہ دلوادوں‘‘(ان شاء اللہ) (تاریخ الخلفاء :جلال الدین السیوطی۵۷)