یہ ایک حقیقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہے اور خلیفہ وہ ہوتا ہے جو اصل کی صفات کا کسی نہ کسی حد تک حامل ہو۔ اگر اصل کی صفات کا حامل نہ ہو تو پھر وہ خلیفہ کس طرح بن سکتا ہے ، اس لئے ضروری ہوا کہ انسان بھی کسی نہ کسی حد تک اﷲ تعالیٰ کی صفات کا حامل ہو ، چنانچہ یہی وجہ ہیکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی تمام صفات ذاتی سے انسان کو حصہ عطا فرمایا ہے ، البتہ الٰہی صفات اور انسانی صفات میں فرق یہ ہوتا ہے کہ اُس کی صفات لامحدود ہیں اور انسانی صفات محدود ۔ اﷲ تعالیٰ سمیع ہے ہمیں بھی سماعت دی ، بصیر ہے ہمیں بھی بصارت دی ، علیم ہے ہمیں بھی علم وغیرہ ۔
ان صفات میں ایک صفت حیات بھی ہے جو اﷲتعالیٰ کی عظیم الشان صفت ہے ۔ اﷲ تعالیٰ اپنی اس عظیم الشان صفت میں سے انسان کو وافر حصہ عطا فرمایا ہے ۔ وہ ’حی‘ ہے زندۂ جاوید ہے ، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ اس نے ہمیں بھی زندگی دی ہے ۔ لیکن ہماری حیات اور اس کی حیات میں فرق یہ ہے کہ وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا ، ہم ازل سے نہیں ہیں لیکن ابد تک رہیں گے۔
حیات انسانی کیلئے اﷲ نے چار عالموں کا تعین فرمایا ہے : (۱) عالم ارواح (۲) عالم اجسام (۳) عالم برزخ (۴) عالم آخرت ۔
حیات انسانی ان ہی چار عالموں پر مشتمل ہے اور ان ہی چار عالموں میں سفر کرتی ہے ۔ اس کا سفر عالم ارواج سے شروع ہوتا ہے اور عالم آخرت میں ابد تک جاری رہتا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے جب ہمیں پیدا فرمایا تو ارواح کی شکل میں پیدا فرمایا اور جس عالم میں ہمیں پہلے پہل رکھا گیا وہ عالم ارواح تھا ، اس عالَم کو عالَمِ ارواح اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں مجرد روحیں رہتی ہیں ، وہاں جسم نہیں ہوتا ۔ یہ ایک عالم بالا ہے اور نورانی عالم ہے ۔ روح پاک اور نورانی مخلوق ہے ۔ عالم انسانیت کے پہلے فرد حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا میں آنے والے آخری انسان تک کی تمام روحیں اس عالم میں رکھی گئیں اوراسی عالم میں ’عہدالَست‘ہوا ان سے سوال کیا گیا ’’أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟‘‘کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ۔ سب نے بَلَیٰ کہہ کر اﷲتعالیٰ کو اپنا رب تسلیم کیا ، اسی فطرت تسلیم و اسلام پر انسان دنیا میں آتا ہے لیکن دنیا میں آنے کے بعد ماحول اس کو اپنے سانچے میں ڈھال لیتا ہے ۔ اسی بات کو حضور اکرمﷺ نے یوں ارشاد فرمایا کہ ہر انسان فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن بعد میں اس کے ماں باپ اس کو یہودی اور نصرانی بنادیتے ہیں۔
تمام انسانوں کی روحیں اس عالم میں رہتی ہیں پھر اس عالم سے بتدریج روحیں دوسرے عالم میں بھیجی جاتی ہیں ، منتقل کی جاتی ہیں۔ یہ دوسرا عالم ’عالم اجسام‘ ہے ۔ اس کو عالم اجسام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس عالم میں روحوں کو اجسام کے ذریعہ ظاہر کیا جاتا ہے ۔ اس انتقال ارواح کا ایک مخصوص طریق کار ہے جس کو ’ولادت‘ کہا جاتا ہے ۔
پہلے ماں کے پیٹ میں جسم کی تخلیق مٹی سے کی جاتی ہے ۔ جی ہاں ! مٹی سے بظاہر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جسم انسانی کی تخلیق مٹی سے کس طرح ہوتی ہے ۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جسم انسانی کی تخلیق مٹی ہی سے ہوتی ہے ۔ جوغذا بھی انسان کھاتا ہے اُس کے فضلات پیشاب اور پاخانے کے ذریعہ خارج ہوجاتے ہیں لیکن غذا کے جو اصل اور مفید اجزا ہیں نمکیات ، آئرن اور فاسفورس وغیرہ اُن سے خون بنتا ہے اور خون سے مادہ منویہ بنتا اور مادہ منویہ سے شکم مادر میں جسم کی تخلیق ہوتی ہے ۔ ان تمام چیزوں کی اصل مٹی ہے ، اسی لئے فرمایا گیا ہے ’’ہم نے تم کو اسی ( مٹی ) سے پیدا کیا ہے اور اسی میں تم کو لوٹا رہے ہیں اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے ‘‘ ۔ یہ سورۂ طہ کی آیت ہے جو قبر میں مٹی دیتے ہوئے پڑھی جاتی ہے۔اس میں عالم ارواح کے سوا باقی تینوں عوالم کی نشاندہی کی گئی ہے ۔
جب شکم مادر میں ابتدائی طورپر اعضائے جسم تشکیل پاجاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے اس میں عالم ارواح سے ایک روح منتقل فرمادیتے ہیں۔ یہ انسان کی دنیاوی زندگی کا عالم اجسام میں آغاز ہوتا ہے ۔ پھر معروف طبعی طورپر انسان کی ولادت ہوتی ہے ۔ عالم ارواح سے روحوں کو عالم اجسام میں لانے کا طریقہ اﷲ تعالیٰ نے یہی مقرر فرمایا ہے۔یعنی جسم کے توسط سے روح کو ظاہر کردیا جاتا ہے لیکن تادم مرگ روح ظاہر ہوکر بھی پوشیدہ ہی رہتی ہے ۔ اس کو صرف علامات ہی سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی سب سے بڑی علامت یہی ہے کہ اس کی موجودگی ہی سے ہمارے جسم کی ساری مشنری کارفرما ہوتی ہے وہ نہ ہو تو جسم کی مشنری کا کوئی پرزہ ذرا سا بھی حرکت نہیں کرسکتا ، ہمارے جسم کی ساری طاقتیں ،روح ہی کی مرہون منت ہیں۔
روح کی آمد و رفت ، آنا جانا ، امر رب سے ہوتا ہے قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل :۱۷:۸۵) کسی کو اس میں مداخلت کی اجازت یا دخل دینے کا اختیار نہیں، دنیا میں جتنی مدت روح کے قیام کی مقدر کردی گئی اس سے ایک پَل بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا
فإِذَا جَآئَ أَجَلُھُمْ لاَ یَسْتأْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَo (نحل ۱۶:۶۱)
عالم اجسام حیات انسانی کی دوسری منزل ہے۔ یہی عالم دارالعمل ہے عالم اراوح میں عمل کا کوئی تصور ہی نہیں، یوں سمجھو کہ عالم ارواح ، عالم اجسام کا ویٹنگ روم ہے جہاں روحیں رہتی ہیں، یہ عالم ہم گزار آئے۔ اب اس وقت ہم دوسری منزل میں ہیں۔ عالم ارواح میں روحیں مجرد ہوتی ہیں ، وہاں جسم نہیں ہوتا لیکن عالم اجسام میں روح مجرد نہیں ہوتی ،جسم کے ساتھ بلکہ جسم کے اندر رہتی ہے اس لئے جسم کو روح کا قفس عنصری کہا جاتا ہے ۔ یہاں روح گویا پرندے کی مانند ہے اور جسم اس کا پنجرہ ہے جو عناصر اربعہ یعنی آب و آتش اور خاک و باد سے مرکب ہے اسی لئے شاعر نے کہا ہے :
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزاء کاپریشاں ہونا
یہاں زندگی سے مراد صرف دنیاوی زندگی مراد ہے ، پوری حیات انسانی مراد نہیں۔