نریندر مودی حکومت کا اصل چہرہ کیا ہے عوام جان چکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بجٹ تجاویز کو من و عن نافذ کرنے کا زعم رکھنے والی حکومت ملازمین کے پی ایف فنڈ پر ٹیکسوں کی وصولی کے مسئلہ پر تنقیدوں اور ناراضگیوں کا شکار ہوئی ہے۔ وزیر فینانس ارون جیٹلی کو اپنے بجٹ پر فخر تھا لیکن ای پی ایف پر 60 فیصد ٹیکس عائد کرنے والے اپنے بدنام بجٹ پر انگلیاں اٹھنے لگیں تو اس فیصلہ کو واپس لینے کا اعلان کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مودی حکومت کو احساس ہوگیا ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف عوام میں ناراضگی پیدا ہورہی ہے۔ پارلیمنٹ میں وقفہ سوالات کے فوری بعد وزیر فینانس نے حکومت کے ارادوں کو صاف اور نیک بتانے کی کوشش کی۔ حکومت گزشتہ ایک ہفتہ سے شش و پنج میں مبتلا ہوگئی تھی اور ای پی ایف پر 60 فیصد ٹیکس کی تجویز کا تنازعہ مودی حکومت کے خلاف مضبوط محاذ کھل جانے کا اشارہ دے رہا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی کو اپنی خود کی پارٹی کے بشمول تمام گوشوں سے منفی ردعمل کا سامنا تھا۔ اس لئے ان کی حکومت نے اپنے بجٹ کا جامع جائزۃ لیا ہے اور مستقبل کے لائحہ عمل کو قطعیت دے کر ہی وزیر فینانس ارون جیٹلی کو پی ایف ٹیکس تجاویز واپس لینے کی ہدایت دی۔ ملک کی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے سامنے حکومت ورک فورس سے وابستہ لاکھوں ملازمین کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی تھی۔ تنخواہ یاب طبقہ پر زائد مالیاتی بوجھ اور وظیفہ یابوں کے مستقبل کی کمائی پر ٹکنیکل شکل میں حکومت کا ڈاکہ مودی حکومت کے لئے نازک صورتحال پیدا کرسکتا تھا۔
اصل بحث یہ ہے کہ آیا ملازمین سرمایہ کاری کرنے کی آزادی رکھتے ہیں لیکن حکومت نے ان کی بچت میں سے اپنے لئے ٹیکس کے ذریعہ مالیہ کا بندوبست کرنے کی جو ترکیب نکالی تھی وہ سراسر ورک فورس کے لئے بار گراں تھا۔ بجٹ میں ٹیکسوں کے خلاف جیویلرس نے بھی غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال شروع کی۔ مودی حکومت نے اپنے بجٹ میں ایک طرف زراعت، دیہی ہندوستان اور انفراسٹرکچر پر زیادہ توجہ دی ہے اور دوسری طرف ورک فورس ملازمین طبقہ کو نظرانداز کردیا۔ مودی حکومت کا شروع سے یہ دعویٰ تھا کہ وہ متوسط طبقہ کے مسائل پر خاص توجہ دے رہی ہے۔ ایک عرصہ بعدکسی سیاستداں نے متوسط طبقہ یا متوسط طبقہ کے بارے میں اظہار خیال کیا تھا جس کی وجہ سے سال 2014 ء کے پارلیمانی انتخابات میں ان کی بھرپور تائید کی گئی تھی لیکن جب انھوں نے بجٹ تجاویز میں اس عام کلاس یا متوسط طبقہ پر ٹیکس کی شکل میں بوجھ ڈالنے کی کوشش کی تو اس کے اثرات اُلٹے ثابت ہونے لگے۔ عوام نے عوامی حکومت کا اصل چہرہ دیکھ لیا تو اب وہ اپنے چہرے پر کئی چہرے سجالینے کی کوشش کررہی ہے۔ وزیر فینانس کا رویہ بھی ان کا ایک چہرہ ہی ہے۔ بجٹ میں ہر طبقہ کے ساتھ انصاف کے نام پر جو دھوکہ دیا جارہا ہے اس سے عوام بخوبی واقف ہوگئے ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد سیاسی تجارت کرنے والے سیاستدانوں نے یہ سوچا تھا کہ ملازمین تو حکومت کے فیصلوں کے تابع ہوتے ہیں لہذا بجٹ میں ایسی تجاویز پیش کی جائیں کہ ان پر مالی بوجھ پڑھ جائے۔ حکومت نے بجٹ میں جہاں امیروں، صنعتکاروں کے لئے راحتیں دی ہیں
وہیں غریبوں کے لئے صرف وعدوں کا دھوکہ چھوڑ دیا ہے۔ کروڑپتی حضرات کی آپ بیتی ہزارہا ہوتی ہیں۔ غریب کی آب بیتی اس کو دو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ حاصل ہوجائے تو کافی ہے۔ ای پی ایف کا مسئلہ خالص معاشی ہے سیاسی نہیں لیکن حکومت نے اسے سیاسی بناکر عوام کی معاشی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ غریبوں کی معیشت کے ساتھ سیاست کرنے کا عالم یہ ہے کہ مودی حکومت نے ٹیکسوں کے ذریعہ تنخواہ یاب طبقہ کو پریشان کرنا چاہا۔ اب اسے احساس ہوا تو مجوزہ ٹیکس نفاذ کے فیصلہ کو واپس لے لیا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ای پی ایف پر سے ٹیکس کا بوجھ ہٹالیا گیا۔ یہ بات بھی حوصلہ افزاء ہے کہ حکومت کو بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آئندہ کوئی سخت قدم نہ اُٹھائے۔ مابعد بجٹ حکومت کا خفیہ منصوبہ ہی عوام کو مسائل سے دوچار کردیتا ہے اور حکومت کے استحصالی بجٹ کے منفی اثرات عام آدمی پر بُری طرح مرتب ہوتے ہیں۔ مودی حکومت کے لئے یہ ازحد ضروری ہے کہ وہ اپنے بجٹ پر نظرثانی کرے اور مہنگائی سے لے کر دیگر مسائل کو کم کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کرے۔ حکومت نے ٹیکس چوری کرنے والوں کو نظرانداز کرکے دیانتدار تنخواہ یاب طبقہ کو سزا دینے کی کوشش کی تھی۔ اسے آئندہ کے لئے بھی یہ احساس باقی رہنا چاہئے کہ ٹیکس چوری کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے کر تنخواہ یاب کو نشانہ بنانا ہمدردانہ مخلص سیاست و قیادت کے اُصولوں کے مغائر ہے۔