ایک دوسرے کی خبر گیری کریں

سید زبیر ہاشمی، معلم جامعہ نظامیہ

معاشرے میں ہمسائے اور محلہ کے افراد انسان سے بہت قریبی تعلق رکھتے ہیں، بلکہ بعض صورتوں میں ان کے باہمی تعلقات رشتہ داروں کی نسبت زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوتے ہیں۔ اسلام محلہ داری اور ہمسائیگی کو ایک اہم معاشرتی ادارہ قرار دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان کے آپسی تعلقات، خلوص، ہمدردی، محبت و اخوت، ملنساری، غمگساری پر قائم رہیں۔
علامہ سید شاہ عطاء اﷲ حسینی ملتانی حفظہ اﷲ بڑی جامعیت کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں کہ اسلام کی نظر میں ہمسایہ اور پڑوسی وہ لوگ ہیں، جو ایک دوسرے کے قریب یا ساتھ ساتھ رہتے ہوں۔ اسلام نے ’’قربت‘‘ کو خاص طورپر ملحوظ رکھا ہے، مثلاً اللہ اور رسول سب سے قریب تر ہیں، اس لئے ان ہی کے حقوق سب سے مقدم رکھے گئے ہیں۔ ان کے بعد والدین سب سے قریب تر ہیں، اس لئے ان کے حقوق خدا اور رسول کے بعد سب سے مقدم ہیں۔ ان کے بعد رشتہ دار، رشتہ جتنا قریبی ہو اس کا حق اتنا ہی زیادہ ہے۔ یہی قربت ہمسایہ کے حقوق میں بھی ہے، جو بالکل ساتھ والے گھر میں رہتا ہے اس کا حق زیادہ ہے اور پھر جو جتنا قریب ہے اتنا ہی اس کا حق ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا ’’یارسول اللہ! میں تحفہ کس کے پاس بھیجوں؟‘‘۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’جس کے گھر کا دروازہ تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو‘‘ (بخاری) اس حدیث شریف سے بخوبی انداز ہوجاتا ہے کہ قربت اسلام میں زیادہ لائق اعتبار قرار دی گئی ہے۔

ایک ہمسایہ تو وہ شخص ہے، جو مستقل طورپر گھر کے ساتھ والے گھر میں رہتا ہے اور عام طورپر پاس پڑوس میں رہنے والے کو ہمسایہ سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ ہمسائے کے بڑے محدود معنی ہیں۔ اسلام لفظ ہمسایہ کو زیادہ وسیع معنی میں استعمال کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور قریبی ہمسایہ اور بیگانہ ہمسایہ اور ہم مجلس کے ساتھ (حسن سلوک کرو)‘‘ (سورۃ النساء۔۶۳) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمسایہ وہ بھی ہے، جو کچھ وقت کے لئے ساتھ ہو۔ مثلاً دو طالب علم بھی ہمسایہ ہیں، جو ایک کلاس میں بیٹھتے ہیں۔ کارخانہ کے دو ملازم بھی ہمسایہ ہیں، جو ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ بس اور ریل کے دو مسافر بھی ہمسایہ ہیں، جو ایک ساتھ سفر کرتے ہیں۔ دو دُکاندار بھی ہمسایہ ہیں، جو ایک ساتھ کاروبار کر رہے ہیں۔

اسلام نے ہمسایہ کا صرف ایک حق مقرر کیا ہے اور وہ ہے ’’حسن سلوک‘‘ لیکن یہ ایک حق اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے۔ حسن سلوک کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ کوئی برائی نہ کریں۔ یہ تو منفی پہلو ہے، اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کریں، ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوں، ایک دوسرے کے آڑے وقت کام آئیں، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک ہوں، ایک دوسرے کی مالی اور اخلاقی اعانت کریں، ایک دوسرے کی خبر گیری کریں، ایک دوسرے کے اہل و عیال کا خیال رکھیں، ایک دوسرے کے عیب چھپائیں اور ایک دوسرے کی کمزوریوں کو نظرانداز کریں۔ غرض کوئی کام ایسا نہیں ہونا چاہئے، جس سے ہمسایہ کی دلآزاری ہو اور ہر وہ کام ہونا چاہئے، جس میں ہمسایہ کی خیالداری ہو۔ مندرجہ ذیل احادیث سے ہمسائے کے حقوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
٭ جبرئیل علیہ السلام ہمیشہ مجھ کو ہمسایہ کا حق ادا کرنے کی تلقین کرتے رہتے تھے، یہاں تک کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ شاید ہمسایہ کو وراثت میں حصہ دار بنادیا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)
٭ ’’خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں‘‘۔ لوگوں نے پوچھا ’’یارسول اللہ! کون مؤمن نہیں؟‘‘۔ فرمایا ’’وہ شخص جس کے ہمسائے اس کی برائیوں اور شرارت سے محفوظ نہ ہوں‘‘۔ (بخاری و مسلم)

٭ جب تم گوشت کا شوربہ بناؤ تو اس میں پانی ذرا زیادہ ڈال دو اور اپنے ہمسائے کی خبر رکھو (یعنی اس میں سے ان کو حصہ دو)۔ (مسلم)
٭ پڑوسی کی بھیجی ہوئی کسی چیز کو حقیر نہ سمجھو، اگرچہ وہ بکری کی ایک کھری ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری و مسلم)
٭ وہ شخص مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھرلے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا پڑا رہے۔ (بیہقی)
٭ تم میں سے وہ شخص مؤمن نہیں جو اپنے پڑوسی کے لئے بھی وہی محبت نہ رکھے، جو وہ اپنی ذات کے لئے رکھتا ہے۔ (مسلم)
٭ ’’اگر تم پڑوسی کے پاس کوئی پھل نہ بھیج سکو تو کم از کم پھلوں کے چھلکے بھی گھر کے باہر نہ پھینکو، مبادا پڑوسی کے بچے انھیں دیکھ کر ترسیں‘‘۔ یہ تمام احادیث اسی ایک حق ’’حسن سلوک‘‘ کی تشریح ہیں، جو پڑوسی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔