حیدرآباد ۔ /8 اپریل (سیاست نیوز) وقار احمد اور اس کے ساتھیوں کو مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کئے جانے کے الزامات کے پیش نظر ریاستی پولیس کا پھر ایک مرتبہ مشتبہ رول آشکار ہوگیا ۔ سال 1993 ء سے اب تک سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو آندھراپردیش و تلنگانہ پولیس نے انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کے نام پر انہیں انکاؤنٹرس میں موت کے گھات اتاردیا ۔ عدلیہ میں مسلم نوجوانوں کو انصاف ملنے کے امکانات روشن ہونے کے سبب پولیس انہیں گولی کا نشانہ بناتے ہوئے اپنا مقصد پورا کرتی آرہی ہے ۔ 1993 ء سے دور تلگودیشم حکومت سے لیکر 2015 ء تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کی حکومت تک مسلم نوجوانوں کے خلاف پولیس و انٹلیجنس کے نظریہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جبکہ ریاست کے مسلمانوں کو تشکیل تلنگانہ کے بعد حکومت کی جانب سے انہیں موثر انصاف ملنے کی روشن امیدیں دکھائی دے رہی تھیں کہ اچانک پولیس نے انکاؤنٹر کے نام پر ایک مرتبہ پھر اپنے منصوبے کے تحت نوجوانوں کو موت کی نیند سلادیا ۔ قابل ذکر انکاؤنٹرس میں جولائی 1993 ء کو فصیح الدین متوطن ضلع نلگنڈہ کو انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا گیا تھا جبکہ /6 اپریل 2000 ء کو جگتیال میں گولی ماردی گئی تھی ۔
اسی طرح نومبر 2002 ء میں سائی بابا مندر دھماکہ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں پولیس نے ملک پیٹ کے نوجوان سید عزیز اور اس کے ساتھی اعظم کو کریم نگر اور اوپل میں گولی مارکر انکاؤنٹر کردیا تھا ۔ اکٹوبر 2004 ء میں متحدہ آندھراپردیش پولیس کی مدد سے گجرات پولیس کی ایک ٹیم نے سعیدآباد کے ایک نوجوان مجاہد سلیم اعظمی کو انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا تھا اور اب وقار احمد اور اس کے چار ساتھی سید امجد علی ، محمد ذاکر ، ڈاکٹر حنیف اور اظہار خان کو پولیس پارٹی پر حملہ کرنے کے الزام میں ایک انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا گیاجو فرضی بتایا جاتا ہے ۔ پولیس ہمیشہ مسلم نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے راستے سے ہٹانے کی غرض سے انہیں مختلف جھوٹے مقدمات میں ماخوذ کرنے اور بعد ازاں انہیں انکاؤنٹر کے نام پر ہلاک کردینے کی کارروائی کرتی آرہی ہے ۔