ایمان کی حفاظت کے لئے علم دین کی ضرورت

ڈاکٹر محمد سراج الرحمنخطیب جامع مسجد پائیگاہ
دینی علوم کا نفع دائمی ہے، جب کہ دنیوی علوم فانی اور اس کا نفع عارضی ہے۔ دینی تعلیم کا ایک حصہ وہ ہے، جس کا حصول ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض عین ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج مسلمان دینی تعلیم کے اس حصہ کو بھی حاصل نہیں کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ دین سے غافل اور جاہل رہ جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ حلال و حرام کا فرق بھی نہیں کرپاتے۔ بظاہر تو لوگ بڑے سمجھدار، وزیر، حکمراں، ڈاکٹر، انجینئر اور بیورو کریٹس ہیں، لیکن انھیں غسل تک کا صحیح طریقہ نہیں معلوم۔ ان کے گھروں میں قرآن مجید کے نسخے ضرور ہوتے ہیں، لیکن کلام اللہ کی ایک سطر بھی صحیح طریقے سے پڑھنا نہیں جانتے اور نہ اس کے سیکھنے کے لئے اپنی صلاحیت صرف کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیاوی تعلیم کی ڈگریاں خواہ کسی بھی یونیورسٹی کی ہوں، تاہم ان کی حیثیت قرآن عظیم کے ایک سطری علم کے برابر بھی نہیں ہے۔

’’موت کے ساتھ ہی ساری دنیاوی تعلیم ختم ہو جائے گی‘‘ یہ بات اپنے بچوں کو ذہن نشین کرانا والدین کی اہم ذمہ داری ہے، ورنہ ہماری اولاد کل بروز حشر ہمارے ہی خلاف رب العالمین کی عدالت میں شکایت کرے گی۔ امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کی پرورش شریعت اسلامی کے مطابق کرے، کیونکہ یہ اس کا بنیادی حق ہے، لیکن اکثر افراد اس بنیادی فریضہ سے حد درجہ غفلت برت رہے ہیں۔
آج ہم دن کے اُجالے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پورے عالم میں مسلمان نسل کو دین و ایمان سے محروم کرنے کے لئے منظم طریقے سے تحریکیں چلائی جا رہی ہیں، جس کو ’’اسلام کی جدید کاری‘‘ کا نام دے کر اور دشمنانِ اسلام اسلامی لبادہ اوڑھ کر مسلم بچوں کی ایمانی بنیاد کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ تنقیدی مطالعہ کے ذریعہ اسلام پر مغربیت کا رنگ چڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ اسلام دشمن عناصر نام نہاد مسلمان بن کر سامنے آرہے ہیں، لہذا ان آستین کے سانپوں سے نئی نسل کو بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ عناصر مسلم بچوں کو دینی تعلیم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ نئی نسل کو مرتد بناکر، ان کو ایمان سے محروم کرکے یا صرف نام کا مسلمان بناکر دوزخ کا ایندھن بنانا ان تحریکوں کا اصل مقصد ہے اور پھر اس قسم کے مسلمانوں کو ’’سیکولر مسلمان‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں ہم مسلمانوں کو چوکنا رہنا چاہئے اور یہ بات ذہن میں بسا لینا چاہئے کہ ہم نئی نسل کو دینی تعلیم سے دُور رکھ کر ان کے دین و ایمان کو مستحکم نہیں کرسکتے۔ اگر ہم نے اپنی نسل کو تحفظ فراہم نہیں کیا تو ایک دن وہ دشمن کا آلۂ کار بھی بن سکتی ہے۔

اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دل دہلانے والے واقعات آئے دن ہم سب کو پڑھنے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جرائم کا ارتکاب، والدین کا قتل اور ان پر جان لیوا حملے دین سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ جب ہم نے انھیں علم دین سے دور رکھا تو ان سے اچھی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔ اس طرح ہم اپنی زندگی کو جہنم اور اپنے بچوں کو دوزخ کا ایندھن بنا رہے ہیں۔
امت مسلمہ دینی تعلیم و تربیت کے معاملے میں لاپرواہی برت رہی ہے، جب کہ اپنی اولاد کو لادینیت کے سیلاب میں غرق ہونے سے بچانا ان کی اہم ذمہ داری ہے۔ امت کا متمول طبقہ مغربی تہذیب کا دلدادہ بنا ہوا ہے اور مشنری اسکولس میں بھاری فیس ادا کرکے اپنے بچوں کو ایسے لوگوںکے حوالے کر رہا ہے، جن کا اصل مشن مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے دور اور مغربی تہذیب سے قریب کرنا ہے۔ امت کا مفلوک الحال طبقہ اپنی اولاد کو تعلیم کی بجائے کام پر لگا دیتا ہے اور اپنے بچوں کی کمائی کھانا اپنی زندگی کا اصل مقصد سمجھتا ہے۔ مذکورہ حالات ہم مسلمانوں کو فکر و شعور کی دعوت دیتے ہیں، لہذا دانشورانِ ملت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امت مسلمہ کو بے راہ روی کے بھنور سے باہر نکالیں۔

ادارہ سیاست کی جانب سے ’’ملت فنڈ‘‘ کے ذریعہ امت کے کمزور طبقہ کی اعانت قابل فخر اقدام ہے، جس کے استحکام کے لئے ہم سب کو حسب استطاعت آگے آنا چاہئے۔ آج ملت کے نونہالوں کی بڑی تعداد جہالت میں گھری ہوئی ہے، جن کے مستقبل کی فکر ان کے والدین کو ہونی چاہئے اور اس کے لئے جنگی خطوط پر کام کرنے اور دینی مدارس کو دور حاضر سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ غور کیجئے کہ جس دین میں علم حاصل کرنا فرض ہے، آج اس کے ماننے والے جاہل کہلا رہے ہیں، یعنی اپنے دین کے اصولوں سے نہ تو وہ خود فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور نہ دوسروں کو پہنچا رہے ہیں۔
اسلامی زندگی کا ایک اہم پہلو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے بعد بات کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ یعنی جلد سونے اور جلد جاگنے سے متعلق متعدد احادیث موجود ہیں، جن پر عمل کرکے ہم اپنی زندگی میں برکتیں حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف رات دیر گئے تک جاگنا، لغویات میں مصروف رہنا اور سورج خوب روشن ہونے تک سوتے رہنا، دین اور دنیا دونوں کے لئے نقصاندہ ہیں۔ صبح سویرے ہم خود اُٹھیں اور اپنے بچوں کو بھی اُٹھائیں، پھر اس کے بعد نماز پڑھیں اور بچوں کو بھی نمازی بنائیں۔ (مرسلہ)