ایرپورٹس پر عنقریب چہرے کی شناخت ٹکنالوجی متعارف

ممبئی ۔ 5 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) جمعرات کو حکومت نے اعلان کیا ہیکہ ہندوستان کے تمام ایرپورٹس پر بہت جلد چہرے کی شناخت کرنے والی ٹکنالوجی کا استعمال ہوگا اور مسافرین کو کسی بھی قسم کی شناختی کارڈ یا بورڈنگ پاس ساتھ رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ وزارت شہری ہوابازی نے اعلان کیا ہے کہ مسافرین کی دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد اور ایرپورٹس پر ہجوم کے باعث آئندہ سال کے ابتداء میں اس نئی ٹکنالوجی کا استعمال ہوگا۔ وزارت کے سکریٹری مسٹر راجیو نارائن چوبے نے بیان دیا ہیکہ داخلی ہوائی جہاز مسافرین کیلئے ان کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی شناخت کو بائیو میٹرک طریقہ کار سے ثابت کریں۔ مسٹر چوبے نے کہا کہ اس ٹکنالوجی کے استعمال سے سیکوریٹی مفید ثابت ہوگی کیونکہ ہر چیک پوائنٹس پر مسافرین کو اپنی شناخت ظاہر کرنے میں آسانی ہوگی۔ یہ نئی اسکیم دراصل اس طرح کی ہے جو ڈیلٹا ایرلائنز نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ پہلی مرتبہ اٹلانٹا ایرپورٹ پر بائیومیٹرک طریقہ کار استعمال کرے گا۔ علاوہ ازیں برٹش ایر ونر نے بھی مسافرین کی شناخت کیلئے نیویارک، اورلانڈو اور میامی ایرپورٹس پر بائیومیٹرک طریقہ شناخت کا انتظام کیا ہے۔ حکومت ہندوستان کے اس نئے منصوبہ کے تحت مسافرین کو ہر مرحلہ پر یعنی چیک ان سے لیکر بورڈنگ تک مختلف تصاویر لی جائے گی جس سے اس کی شناخت میں آسانی ہوگی۔ اس نئی ٹکنالوجی کا استعمال فبروری 2019ء میں ابتداء بنگلورو اور حیدرآباد ایرپورٹس پر کیا جائے گا۔ اس کے بعد اس ٹکنالوجی کو کلکتہ، وارانسی، پونے اور وجئے واڑہ تک اپریل میں متعارف ہوگی لیکن بنگلور ایویشن ویب سائیٹ ایڈیٹر مسٹر دیوش اگروال نے خدشہ ظاہر کیا ہیکہ اس نئی ٹکنالوجی کے استعمال سے کہیں انفرادی رازداری متاثر تو نہ ہوگی اور انہوں نے کہا کہ یہ نیا طریقہ کار قابل تعریف ضرور ہے لیکن بائیومیٹرک سے حاصل شدہ مواد کو کس طرح محفوظ کیا جائے گا اور کہیں یہ تفصیلات کسی خانگی کمپنی کے ہاتھ نہ لگ جائے تاکہ وہ بلیک میل نہ کرے۔ پچھلے ایک دہے میں مسافرین کی تعداد میں تقریباً چھ گنا اضافہ ہوا ہے اس کی وجہ کرایوں میں کمی کے ساتھ ساتھ بہتر رابطہ مراکز شامل ہیں اور کم قیمتی ایرلائنز کے وجود میں آنے سے بھی مسافرین کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ کی ایک اہم وجہ ہے لیکن ایرپورٹس پر دن بدن اضافہ سے ایرپورٹس اسٹاف کیلئے چیلنج بن گیا ہے اور تجزیہ کاروں کا خیال ہیکہ ایرپورٹس کی گنجائش میں اضافہ کیلئے کئی بلین ڈالرز خرچ کرنے ہوں گے۔