ایران کیساتھ نیوکلیر معاہدہ نہ ہوتا تو مشرق وسطیٰ کو جنگ کا خطرہ ہوتا: اوباما

پٹس برگ میں اُمور خارجہ کے سینئر ورکرس کے اجتماع سے خطاب

واشنگٹن 22 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) صدر امریکہ بارک اوباما نے آج ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہاکہ اگر ایران اور 6 ممالک کے درمیان نیوکلیر معاہدہ نہ ہوا ہوتا تو مشرق وسطیٰ پر ہمیشہ جنگ کے بادل چھائے رہتے۔ انھوں نے ری پبلکن کانگریسیوں سے درخواست کی کہ وہ اس معاہدہ کی منظوری دیں۔ پٹس برگ میں اُمور خارجہ کے سینئر ورکرس کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ایک بار پھر کہاکہ ایران اور چھ ممالک کے درمیان ہوا معاہدہ کوئی معمولی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہم نے اس طرح ایران کو پرامن طریقہ سے نیوکلیر پروگرام ترک کردینے کے لئے راضی کرلیا ہے جس کے عوض ایران پر عائد تحدیدات بھی برخاست کردی جائیں گی۔ تاہم ہمیں کچھ ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ بعض گوشوں سے اُن ہی پرانی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے پر زور دیا جارہا ہے جس میں ماضی میں ہم ناکام ہوچکے ہیں۔ ایسے ہی ماہرین اور سیاسی پنڈت کہے جانے والوں نے ایک جانب یہ کہہ دیا تھا کہ ایران کے ساتھ نیوکلیر معاہدہ ہونا ناممکن ہے اور اسے سفارتی بنیاد پر بھی مسترد کردیا تھا

اوراب وہی لوگ بغلیں جھانک رہے ہیں۔ ہم نے جو کچھ کیا وہ عالمی تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں تھا تو پھر کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم تھوڑی سی زائد ہوشیاری اور حاضر دماغی کا استعمال کرتے ہوئے ایران کو پرامن طریقہ سے نیوکلیر پروگرام سے دستبردار ہونے کے لئے راضی کرلیں۔ دنیا کے دیگر ممالک کی آراء کو مسترد کرتے ہوئے ہم نے اس معاملہ میں پیشرفت کی اور اس طرح دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی سلامتی کو ترجیح دی۔ مخالفین اور ناقدین کی کسی بھی ملک میں کوئی کمی نہیں ہے۔ دشمنوں کے ساتھ بات چیت پر بھی وہ لوگ سینہ کوبی کرتے ہیں۔ ہند و پاک ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے ہوں گے تاہم ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئیں اور ایسا کئی بار ہوا ہے کیوں کہ یہی ایک مستحکم طریقہ کار ہے جس کے ذریعہ دنیا کے کسی بھی مسئلہ کو پرامن طریقہ سے حل کیا جاسکتا ہے۔ بعدازاں اوباما نے نیویارک میں ٹیلی ویژن کے ایک ڈیلی شو میں بھی شرکت کی جہاں انھوں نے منفی سوچ رکھنے والے اور مثبت پالیسیوں پر تنقید کرنے والے قائدین کی نقل اتارتے ہوئے ان کے ہی انداز میں بات کرتے ہوئے شائقین پروگرام کو بیحد محظوظ کیا۔

بخارا میں مجوزہ مسجد کی تعمیر کی مخالفت
بخارا 22 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) شہر بخارا میں ایک نئی مسجد کی تعمیر کی شدید مخالفت کی جارہی ہے جس کے لئے فنڈس کی فراہمی ترکی کی جانب سے کی جائے گی جس کا مقصد ترکی سے باہر مذہبی مقامات کی تعمیر ہے۔ حکومت رومانیہ نے اس سلسلہ میں گیارہ ہزار مربع میٹر اراضی، نمائش سنٹر، روم ایکسپو کے قریب بالکل مفت فراہم کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اراضی کی موجودہ مارکٹ قیمت 3.9 ملین پاؤنڈس ہے جو رومانیہ کے مسلمانوں کے مفتی مراد یوسف کے حوالے کی گئی۔ مسجد کی تعمیر کے اخراجات حکومت ترکی برداشت کرے گی جو کسی بھی یوروپی دارالخلافہ میں اعظم ترین مسجد ہونے کا اعزاز حاصل کرے گی۔ تاہم رومانیہ کے بعض دانشور دائیں بازو کے گروپس اور بعض مسلمان بھی مجوزہ مسجد کی تعمیر کی مخالفت کررہے ہیں۔