ایران پر دوبارہ امریکی تحدیدات کا نفاذ اگست اور نومبر میں

ایران کا آٹوموٹیو سیکٹر، سونے کی تجارت، توانائی سیکٹر اور سنٹرل بینک آف ایران
کے ساتھ معاملتیں نشانہ پر
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈائرکٹر برائے پالیسی پلاننگ برائن ہوک کی نیوز کانفرنس

واشنگٹن ۔ 3 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’کیس بائے کیس کی بنیاد پر‘‘ امریکہ صرف ان ہی ممالک کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتا ہے یا کام کرنا چاہتا ہے جو ایران سے تیل کی درآمد نہ کریں۔ علاوہ ازیں ہندوستان اور ترکی جیسے ممالک سے بھی کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ ہم نہیں چاہتے کہ ایران پر دباؤ کم ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایران پر دباؤ بدستور برقرار رہے۔ یاد رہیکہ ایران ہندوستان کو تیل سربراہ کرنے والا عراق اور سعودی عرب کے بعد تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایران نے اپریل 2017ء اور جنوری 2018ء کے درمیان 18.4 ملین ٹن خام تیل ہندوستان کو برآمد کیا۔ گذشتہ ماہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 2015ء کے اہم ترین ایران نیوکلیئر معاہدہ سے امریکہ کو علحدہ کرلیا تھا اور اس کے بعد ایران پر دوبارہ تحدیدات عائد کردی تھیں جوایران کے نیوکلیئر معاہدہ سے دستبردار ہونے کے عوض معطل کردی گئی تھیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس وقت بیرون ممالک کی کمپنیوںکو 90 تا 180 دنوں کی مہلت دی تھی کہ وہ ایران کے ساتھ اپنی تمام تجارتی سرگرمیاں معطل کردیں جس کیلئے کمرشیل سرگرمیوں کی بنیاد پر مہلت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اب صورتحال یہ ہیکہ امریکہ ایسے دیگر ممالک بشمول ہندوستان اور چین پر بھی دباؤ میں اضافہ کررہا ہے اور واضح طور پر یہ حکم دے رہا ہیکہ 4 نومبر تک ایران کے ساتھ تیل کی خریداری کا سلسلہ بالکل بند کردیا جائے۔ ہم لائسنس کی اجازت بھی ہرگز نہیں دیں گے کیونکہ ایسا کرنے سے ایران پر پڑنے والا دباؤ کم ہوجائے گا اور چونکہ ہماری یہ مہم ایران پر دباؤ بڑھانے کی مہم ہے لہٰذا کسی بھی صورت میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈائرکٹر برائے پالیسی پلاننگ برائن ہوک نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران اخباری نمائندوں سے یہ بات کہی۔ ہم چاہتے ہیں کہ دباؤ کا سلسلہ جاری رہے کیونکہ اس کے ذریعہ ہی ہم قومی سلامتی کا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ ایران پر تحدیدات کا پہلا مرحلہ 6 اگست کو شروع ہوگا جن میں ایران کے آٹو موٹیوسیکٹر، سونے کی تجارت اور دیگر اہم دھاتوں کو نشانہ بنایا جائے گا جبکہ تحدیدات کا دوسرا مرحلہ 4 نومبر کو شروع ہوگا جس کے ذریعہ ایران کے توانائی سیکٹر اور پٹرولیم کی بنیاد پر کی گئی معاملتوں اور سنٹرل بینک آف ایران کے ساتھ معاملتوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ مسٹر ہوک نے ایک بار پھر اپنی بات دہراتے ہوئے کہ ہم صرف ایسے ممالک کے ساتھ ہی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں جو ایران سے تیل نہ خریدے۔ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے نیوکلیئر معاہدہ سے علحدہ ہونے کے بعد امریکی عہدیدار متعدد ممالک کا دورہ کررہے ہیں اور ایران معاملہ پر صدر ٹرمپ کا پیغام دیتے ہوئے ان سے بھرپور تعاون کی اپیل کررہے ہیں۔