ویانا۔28 جون ( سیاست ڈاٹ کام ) ایران اور امریکہ کے درمیان نیوکلیئر مذاکرات ’’ اہم مرحلے ‘‘ میں داخل ہوگئے ۔ جب کہ تین دن قبل قطعی آخری مہلت میں تبدیلی کے سلسلہ میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی ۔ یہ قطعی آخری مہلت ایران کے نیوکلیئر اسلحہ پروگرام کو ناکام بنانے کے سلسلہ میں ایک قطعی معاہدہ کے لئے مقرر کی گئی تھی ۔ یوروپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فریڈریکا مغرینی آج دن میں یہاں پہنچنے والی ہیں ۔ ایک دن قبل وزیر خارجہ امریکہ جان کیری اور وزیرخارجہ ایران ویانا پہنچ چکے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بات چیت میں بہت کم پیشرفت کی ہے ‘ کیونکہ ویانا میں کل دونوں وزرائے خارجہ باہم بات چیت کرچکے ہیں ۔ واضح طور پر ایک مغربی سفارتکار نے کہا کہ ہم ایک اہم مرحلہ میں پہنچ چکے ہیں ۔ آخری دنوں میں زیادہ کشیدگی پیدا ہوگئی ہے
لیکن ایسا ہونا متوقع بھی تھا ۔ عالمی طاقتیں جنہیں پی 5+1 گروپ کہا جاتا ہے جس میں برطانیہ ‘ فرانس ‘ جرمنی ‘ روس اور امریکہ شامل ہیں ۔ قطعی تفصیلات طئے کرنے میں مصروف ہیں تاکہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام میں تخفیف کی تازہ تفصیلات طئے کی جائیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ 30جون منگل کی قطعی آخری مہلت تک رہنمایانہ اور تعمیری ہدایات کے مجموعہ پر معاہدہ کا چوکٹھا تیار کرلیا جائے اور 2اپریل کو لوسان میں جس معاہدہ سے اتفاق رائے ہوچکا ہے اس پر دستخط ہوجائیں ۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جان کیری نے کہا کہ حالانکہ انہیں امید ہے لیکن پھر بھی کافی سخت محنت ضروری ہے ۔ وزیرخارجہ ایران محمدجواد ظریف نے جان کیری سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ سودے بازی کیلئے درحقیقت سخت جدوجہد ضروری ہے
تاکہ ہم پیشرفت کرسکیں ۔ تاہم اُن کے نائب عباس ارغچی نے کہا کہ لوسان چوکٹھا کا مزید اطلاق نہیں کیاجاسکتا کیونکہ دیگر ممالک نے اپنے موقف تبدیل کردیئے ہیں ۔ لوسان میں کئی تنازعات کا حل تلاش کرلیا گیا تھا لیکن بعض مسائل اب بھی حل نہیں ہوئے ہیں ۔ ایرانی ٹی وی چینل ’’ ال عالم ‘‘ نے جس میں نشریات عربی میں کی جاتی ہے کہا گیا ہے کہ اب بعض مسائل کے حل تلاش کرنے ہوں گے کیونکہ لوسان میں جو حل تجویز کئے گئے تھے اب کارآمد نہیں رہے ۔ کیونکہ کئی ممالک نے پی 5+1 کے اعلامیہ سے انحراف کیا ہے اور ہمیں اُن کے موقف میں تبدیلی کی وجوہات کا تعین کرنا ہے ۔ سرکاری عہدیداوں نے تسلیم کیا کہ 30جون کی قطعی آخری مہلت میں توسیع کا امکان ہے کیونکہ کئی سفارت کاروں نے ایک مہینہ طویل تفصیل مذاکرات کو مزید دو سال تک جاری رکھنے کے بارے میں شکوک ظاہر کئے ہیں ۔