ایران میں تبدیلی کی حیران کن ہوا

تہران ۔ یکم ؍ مارچ (سیاست ڈاٹ کام) ایران میں پارلیمان اور شوری نگہبان کے نتائج کا اعلان ہوچکا ہے جو انتہائی حیران کن ہیں۔  دارالحکومت ایران میں صورتحال بالکل واضح ہے۔ حکومت نواز جماعتوں نے تہران کی 30 نشستیں حاصل کر کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج میں مکمل فتح حاصل کر لی ہے جو سخت گیر حلقوں کے لیے ایک شرمناک شکست ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ دوسرے یعنی شوری نگہبان کے انتخاب میں ایران کے اصلاح پسند صدر حسن روحانی کے حمایت یافتہ اْمیدواروں نے اہم سخت گیر رہنماؤں کو شکست دے دی ہے۔ تکنیکی اعتبار سے یہ علما کونسل سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے انتقال کے بعد، اْن کے جانشین کا انتخاب کرنے کا اہم کام سر انجام دے گی۔ فاتح اْمیدواروں کی فہرست میں شامل سیاستدانوں کا اتحاد بے جوڑ تھا، اس میں معتدل اْمیدوار اور کچھ سابقہ سخت گیر رہنما بھی شامل تھے۔ اگرچہ یہ گروہ اب بھی سماجی طور پر قدامت پسند جانا جاتا ہے جبکہ حالیہ چند برسوں کے دوران اِنھوں نے صدر روحانی کی اعتدال پسند پالیسیوں کی کھل کر حمایت کی ہے، خاص طور پر بیرونی دنیا کے ساتھ اْن کے تعلقات اور عالمی طاقتوں کے ساتھ کامیاب نیوکلیئر معاہدے کے حوالے سے۔ انتخابی امیدواروں کی جانچ کرنے والی نگران کونسل کی جانب سے تقریباً تمام معروف اصلاح پسند امیدواروں اور کئی اعتدال پسند اْمیدواروں کو نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اصلاح پسند رہنماؤں نے نئے اتحاد کی بنیاد رکھی اور اپنے حمایتی عوام سے حکمت عملی کے بنیاد پر ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ بڑے پیمانے پر نا اہلیوں اور عوام کی عدم دلچسپی کے پیش نظر بہت سے مبصرین نے انتخابی مہم کے یکطرفہ رہنے کی پیش قیاسی کی تھی۔ مبصرین کے خیال میں اِن حالات کی وجہ سے سخت گیر با آسانی انتخابات میں فتح حاصل کرلیں گے۔ لیکن انتخابی مہم کے آخری حصے میں صورتحال بالکل تبدیل ہوگئی اور ایرانی سیاست میں بھونچال آ گیا۔ لیکن یہ کس طرح ہوا۔ انگریزوں کی فہرست گلیوں میں سْست روی سے چلنے والی انتخابی مہم انٹرنیٹ پر اس کے برعکس رہی۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹیں اس سیاسی بھونچال کے لیے بہترین جگہ ثابت ہوئیں۔