مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
جنت میں جنتی حضرت داؤد علیہ السلام کی تلاوت سن کر دو سو سال وجد کی کیفیت میں رہیں گے۔ جب اس کیفیت سے باہر ہوں گے تو اللہ تعالی فرمائے گا ’’میرے بندو! تم نے اس سے بہتر آواز پہلے کبھی سنی ہے؟‘‘۔ وہ کہیں گے ’’اے اللہ! ہم نے اس سے بہتر آواز نہیں سنی‘‘۔ اللہ تعالی فرمائے گا ’’میں تمھیں سنواؤں گا‘‘۔ پھر اللہ تعالی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائے گا ’’اے میرے محبوب! ان بندوں کو سورۂ طٰہٰ اور سورۂ یٰسٓ پڑھ کر سناؤ‘‘۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ تعالی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت داؤد علیہ السلام سے ستر گنا زیادہ خوش الحانی عطا فرمائے گا اور اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش الحانی کے ساتھ اللہ کا قرآن پڑھیں گے تو پانچ سو سال جنتیوں پر وجد کی کیفیت رہے گی۔ پھر جب کچھ ٹھیک ہوں گے تو اللہ تعالی پوچھے گا ’’اے میرے بندو! تم نے اس سے زیادہ اچھی آواز کبھی سنی ہے؟‘‘۔ بندے عرض کریں گے ’’اے اللہ! کبھی نہیں سنی‘‘۔ اللہ تعالی فرمائے گا ’’میں تمھیں سناتا ہوں‘‘۔ چنانچہ اللہ رب العزت سورۂ رحمن کی تلاوت خود فرمائے گا۔ یعنی پروردگار عالم پڑھنے والا ہوگا اور جنتی سننے والے ہوں گے۔ جب اللہ تعالی جنتیوں کو سورۂ رحمن سنا دے گا تو جنت میں ایک ہوا چلے گی، جس سے جنت کے دروازے اور کھڑکیاں بجنے لگیں گے اور درختوں سے آوازیں آئیں گی۔
وہ آوازیں ایسی ہوں گی، جنھیں سن کر جنتیوں پر نشے کی کیفیت طاری ہو جائے گی، چنانچہ اللہ تعالی ان کو لذتیں عطا فرمائے گا۔ پھر جب جنتی اس کیفیت سے لطف اندوز ہوچکے ہوں گے تو اللہ رب العزت اپنا حجاب ہٹاکر اپنے بندوں کو اپنا دیدار عطا فرمائے گا۔ وہ دیدار بے جہت، بے کیف، بے شبہ اور بے مثال ہوگا۔ پھر اللہ تعالی فرمائے گا ’’میرے بندو! تم راتوں کو میری یاد میں جاگتے تھے، تم دنوں کو میری محبت میں نیک عمل میں لگے رہتے تھے، تمھیں لوگ برائی کی طرف بلاتے تھے، مگر تم میری محبت کی وجہ سے برائی سے بچتے تھے۔ تمہاری نگاہیں جھکی رہتی تھیں، تم اپنی نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھتے تھے، تم کسی کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتے تھے، تمہارے دل میں میرے دیدار کا شوق تھا، میری ملاقات کی تمنا تھی، تم نے برے دوستوں کو چھوڑدیا، برے کاموں کو چھوڑدیا، تم نے برائیوں سے اپنے آپ کو بچالیا، تم میری محبت میں زندگی گزارتے تھے۔ میرے بندو! تم نے میرے حسن و جمال کو دیکھنا پسند کیا، آج میں تمھیں اپنا دیدار عطا فرماتا ہوں‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالی جنتیوں کو اپنا دیدار عطا فرمائے گا۔
یہ دیدار ایسا ہوگا کہ جنت میں نور کی بارش ہوگی اور وہ بارش جنتیوں کے کپڑوں اور چہروں پر پہنچے گی۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جس طرح آندھی آتی ہے تو باہر جتنے لوگ ہوتے ہیں ان کے چہروں پر مٹی کی تہہ جم جاتی ہے۔ اسی طرح یہ نور کی آندھی ہوگی، جنتیوں کے چہروں پر نور کی ایک تہہ آجائے گی اور ان کا حسن اتنا بڑھ جائے گا کہ جب وہ کئی سال تک اللہ تعالی کے حسن کی لذت کے مزے لے کر اپنی اصل کیفیت میں واپس ہوں گے تو ان کا حسن اتنا بڑھ چکا ہوں گا کہ اب جنتی مخلوق ستر سال تک ٹکٹی باندھ کر ان کے حسن کو دیکھتی رہ جائے گی۔ اللہ تعالی کی طرف سے پھر جنتیوں کو حکم ہوگا ’’میرے بندو! یہ تمھیں میرا پہلی دفعہ دیدار ہوا ہے اور اب وقفہ وقفہ سے ہوتا رہے گا‘‘۔
جنتیوں کو یہ دیدار جمعہ کے دن کروایا جائے گا، کچھ لوگوں کو سال کے بعد ہوگا، کچھ ایسے لوگ ہوں گے جن کو روزانہ دیدار کروایا جائے گا۔ جس کو جتنی مرتبہ دیدار نصیب ہوگا، وہ جنت میں اتنا عزت والا انسان ہوگا۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ وہ اندھا جس کو اللہ نے اندھا پیدا کیا اور اس نے صبر و شکر اور حفاظت کی زندگی گزاری، یہ اندھا جب جنت میں جائے گا تو اللہ رب العزت اس کو یہ عزت عطا فرمائے گا کہ یہ ٹکٹکی باندھ کر اللہ کا دیدار کرے گا، اللہ تعالی کا دیدار اس کی نظر سے کبھی اوجھل نہ ہوگا۔ اللہ تعالی فرمائے گا ’’یہ میرا وہ بندہ ہے، جس نے دنیا میں کبھی کسی غیر کو محبت کی نظر سے نہیں دیکھا، اس لئے اب یہ ہروت میرا ہی دیدار کرتا رہے گا‘‘۔ گویا دیدار کا پیمانہ یہ ہوگا کہ جو غیر محرم کو محبت کی نظر سے دیکھے گا، وہ اللہ تعالی کے دیدار سے محروم ہوگا۔ لہذا سوچ لیجئے کہ دنیا میں جب کسی مرد نے غیر عورت کے حسن کی طرف محبت کی نظر ڈالی یا عورت نے کسی غیر مرد کی طرف نظر ڈالی، ہر نظر کے بدلے یہ دونوں اللہ کے دیدار سے محروم کردیئے جائیں گے۔ غور فرمائیے! یہ کتنی بڑی محرومی ہے، جب کہ آج عورتیں بن سنور کے بازاروں میں بے پردہ نکلتی ہیں، جن کا مقصد غیروں کو دیکھنا یا دکھانا ہوتا ہے۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ جو عورت اس لئے بنتی اور سنورتی ہے کہ اس کو غیر محروم مرد دیکھ کر خوش ہوں، چاہے اس کا کزن ہو یا اس کا پڑوسی یا کوئی اجنبی، حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو عورت اس لئے بنتی سنورتی ہے کہ اس پر کوئی غیر محرم مرد اس کی طرف محبت کی نظر ڈالے، اللہ رب العزت اس بننے اور سنورنے کی وجہ سے یہ فصلہ کرلیتا ہے کہ میں قیامت کے دن اس عورت کو محبت کی نظر سے نہیں دیکھوں گا، اس لئے کہ یہ چاہتی ہے کہ اسے غیر مرد دیکھیں، لہذا میں ایسی عورت کو نہیں دیکھوں گا۔ سوچئے کہ کتنا بڑا نقصان ہے۔ جو جوان لڑکیاں خود کو بنا سنوار کے جاتی ہیں کہ غیر مرد دیکھیں، وہ اللہ کی محبت بھری نظر سے محروم ہو جائیں گی۔ برعکس اس کے جو خواتین پردے کا اہتمام کرتی ہیں، حجاب پہنتی ہیں وہ نیک اور اچھی ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ خواتین جو غیر محرم کی نظروں سے خود کو بچاتی ہیں، ان کے اس عمل کی وجہ سے بروز قیامت اللہ تعالی ان پر محبت کی نظر فرمائے گا۔ اب یہ فیصلہ خواتین کے اختیار میں ہے کہ وہ دنیا کے مردوں کی کمینی نگاہیں اپنے جسم پر ڈلوانا چاہتی ہیں یا اللہ رب العزت کی پاک نظر کی متمنی ہیں۔ دنیا کی یہ لذتیں تھوڑے وقت کے لئے ہیں، جب کہ آخرت کی لذت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ (اقتباس)