سید شاہ مصطفی علی صوفی سعید قادری
اہل بیت کے لفظی معنٰی ہیں گھر والے۔جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے حالانکہ وہ ولادت سے نہیں لیکن اہل بیت ولادت کے مستحق ہیں کیونکہ دامادی رسول کا شرف بھی عطا ہوا اور بچپن ہی سے آغوش نبوی میں وہ پرورش پائے۔خلاصہ یہ کہ بیت تین قسم کے ہیں۔ بیتِ نسب‘ بیتِ سکن‘ بیتِ ولادت۔ اس لحاظ سے اہل بیت بھی تین قسم کے ہیں (اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ)اہل بیت کے مناقب میں بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں کسی مقام پر ارشاد ہوا ’’میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں‘‘ اور کبھی فرمایا ’’فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے جس نے اس کا دل دکھایا اس نے مجھے دکھ پہنچاکر ایذا دی‘‘۔
حجۃ الوداع سے واپسی پر مکہ اور مدینہ کے درمیان حجفہ سے (۲)میل پر واقع غدیر خم پرآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اسی موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت اور شان کا اس طرح فرمایاکہ میں جس کا مولا ( دوست اور حامی) ہوں علی رضی اللہ عنہ اس کے مولا (دوست اور حامی ہیں)۔ پھر دعاء دی ’’اے اللہ اس کی تو حمایت فرما جو اُن کی حمایت کرے اور اس کی دشمنی تو بھی کر جو اُن سے دشمنی کرے ‘‘۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تربیت میں رہے ہیں بعد میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی لخت جگر‘ خاتون جنت سے آپ کا نکاح ہوا۔ اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت بی بی فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرکے فرمایا ’’میں نے تمہارا نکاح اہل بیت کے بہترین فرد سے کردیا ہے پھر اُن کو دعائیں
دیں اور اُن دونوں پر پانی چھڑکا۔‘‘خاندانِ اہل بیت اطہار کی سب سے اہم کڑی جگرگوشۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ‘سیدۃ النساء خاتون جنت رضی اللہ عنہا‘ کی ذاتِ گرامی ہے۔ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے شادی کے وقت آپؓ کی عمر شریف (۱۵) سال کچھ ماہ تھی۔
جب نجران کے عیسائی حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نبوت کے بارے میں جھگڑنے لگے تو آیت مباہلہ (اٰل عمران۔۶۱) نازل ہوئی جس میں اپنی عورتوں اور بیٹیوں کے ساتھ نکل کر مباہلہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس موقع پر حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم حضرات علی‘ فاطمہ‘ حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ لیکر نکلے اور فرمایا تھا: اللھم ھٰؤلآء اھل بیتی یعنی الٰہی یہ میرے گھر والے ہیں۔ لہٰذا یہ حضرات اہل بیتِ ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ’’مسجد نبوی میں مدینہ کا چاند‘ تاروں کے جھرمٹ میں تشریف فرماتھا جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی داہنی جانب بیٹھے تھے اُسی اثناء میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور سلام کرکے کھڑے ہوگئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فورًا اپنی جگہ سے اُٹھ گئے اور فرمایایہاں آئیے ابوالحسن۔ جس پر چہرئہ نبوی پر مسرت کے آثار نمایاں ہوگئے اور ارشاد فرمایا: ’اے ابوبکر فضل والا ہی فضل والے کی قدر کرنا جانتا ہے‘۔
طبرانی کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پدر بزرگوار( صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ) کے بعد اُن سے بہتر میں نے قطعاً کسی کو نہیں دیکھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی نسلِ پاک صرف اُنہی سے قائم ہے۔ مسلم و بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو منبر پر یہ ارشاد فرماتے ہوے سناگیا ’’فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے‘ جس سے اس کو اذیت پہنچتی ہے اس سے مجھے بھی اذیت پہنچتی ہے‘ جس نے اس کو رنج دیا اس نے مجھے رنج دیا جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ام المؤمنین سے روایت ہے کہ ’’فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایک مرتبہ آتے دیکھا تو اُن کے چلنے کا انداز بالکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے چلنے کے انداز سے مشابہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہنے کہا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہوتے تو روانگی کے وقت سب سے آخری کام جو کرتے وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات ہوتی اور اسی طرح واپسی میں پہلا کام یہی کرتے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھتے (یعنی کم سے کم وقت جدائی کا رہتا)۔