ایک دفعہ ایک فقیر کا کسی جنگل سے گزر ہوا ‘ راستے میں اسے کوے کا بچہ نظر آیا ‘ وہ درخت کے نیچے پڑا ہوا بھوک سے بار بار اپنی چونچ کھول رہا تھا ۔ فقیر کو اس پر بڑا ترس آیا ‘ اتنے میں ایک باز نیچے اترا ۔ اس کے پنجے میں گوشت کا ٹکرا تھا ‘ باز کو ے کے بچے کے پاس بیٹھ گیا اور اسے گوشت کھلانے لگا ۔ فقیر نے یہ منظر دیکھا تو بڑا حیران ہوا کہ باز تو پرندوں کا دشمن ہوتا ہے مگر یہ کوے کے بچے کو گوشت کھلا رہا ہے ‘ واقعی اللہ کتنا مہربان ہے ‘ وہ چاہے تو دشمن کے ذریعہ بھی روزی دے سکتا ہے ۔
فقریر نے سوچا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی بے زبان مخلوق کو ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر روزی دے سکتا ہے تو میں کیوں روزی کیلئے پریشان ہوں اور در در کی ٹھوکریں کھارہا ہوں … اللہ تعالیٰ ضرور مجھے بھی اسی طرح روزی دے گا ۔ یہ سوچ کر وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا ۔ فقیر کو وہاں بیٹھے بیٹھے شام ہوگئی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا ‘ بھوک سے اس کا برا حال تھا ۔ اسی حالت میں رات ہوگئی اور وہ انتظار کرتا رہا لیکن کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آیا ۔ فقیر صبح اٹھا تو اسے بڑی امید تھی کہ آج ضرور اس کی روزی کا انتظام ہوجائے گا لیکن وہ دن بھی اسی طرح گزر گیا ۔ اس کے بعد دو دن اور گزر گئے ۔ اب تو بھوک اور کمزوری سے فقیر کا برا حال ہوگیا ‘ وہ درخت کے نیچے نڈھال پڑا سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری روزی کا انتظام کیوں نہیں کیا ؟ اگر کوے کے بچے کی روزی کا انتظام کیوں نہ ہوا ؟ کیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدمی کی اہمیت کوے کے بچے سے بھی کم ہے ؟ ۔یہ سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی اس نے خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا ‘ بزرگ نے فقیر سے کہا ’’ تم نے باز کو دیکھا جو محنت سے کمانا جانتا ہے اور کوے کے بچے کو بھی دیکھ کہ وہ باز کا محتاج ہے ‘ پھر تمہیں باز کا خیال کیوں نہیں آیا ۔ تم نے کوے کے بچے کی طرح بننا کیوں پسند کیا ‘ تم انسان ہو اس لئے باز کا طریقہ اختیار کرو ۔ محنت کر کے خود بھی کھاؤ اور جو کمزور اور لاچار ہیں انہیں بھی کھلاؤ ۔ یہ خواب دیکھتے ہی فقیر کی آنکھ کھل گئی ‘ اسے احساس ہوا کہ اس نے جو بات سوچی تھی وہ کتنی غلط تھی ۔ اب اس نے فیصلہ کرلیا کہ آئندہ وہ محنت کر کے روزی کمائے گا اور کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے گا۔ دیکھا بچو! ہمیں بھی دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے اصول پر تمام کام انجام دینے چاہئیں ۔