تاریخ اسلام میں حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دور خلافت ساڑھے دس سال رہا ، جس کے دوران مسلمانوں کو فتح و کامرانی حاصل ہوتی رہی ۔ آپؓ کے دور خلافت میں رومیوں سے جنگ ہورہی ہے ، یرموک کا مرحلہ ہے ایک طرف مجاہدین اسلام جن کی کل تعداد ۳۵(پینتیس) ہزار اور دشمن کی تعداد ڈھائی لاکھ جو مکمل طورپر جنگی سامان سے آراستہ ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ادھر مسلمان اﷲ کے نام کی سربلندی کیلئے جان و تن کا نذرانہ پیش کرنے کیلئے بے چین ہیں۔ ایسے پُرآشوب مرحلے میں حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل اپنی صف سے نکلے اور للکارکر مجاہدوں کو جوش دلاتے ہوئے کہا ،کون ہے جو میرے ہاتھ پر موت کی بیعت کرنے تیار ہے؟ پھر کیا تھا ، حضرت سہیلؓ ، حضرت حارثؓ ، حضرت ضرار بن ازور ایسے جیالے نکلے جو عکرمہؓ بن ابی جہل کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے جن کی تعداد چار سو تک ہوگئی ۔ بیعت کرنے کے بعد یہ مجاہدین جان کی پروا کئے بعیر دشمنوں کی صف میں گھس گئے اور فتح و کامرانی نے ان کے قدم چومے ۔ لیکن جب یہ لوگ زخموں سے چور ہوگئے تو ایسے میں پانی پلانے والی عورتوں نے حضرت عکرمہؓ کو پانی پیش کیا تو انھوں نے حضرت سہیلؓ کی طرف اس کو بڑھا دیا۔ حضرت سہیل ؓ نے حضرت حارثؓ کی طرف بڑھا دیا اس طرح پانی اِدھر اُدھر ہوتا رہا لیکن کسی کے حلق سے اُتر نہ سکا اور ان لوگوں نے جامِ شہادت نوش فرمالیا ۔ آخری وقتوں میں بھی اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دینا ، صحابہ کرام ؓکا خاص وصف رہا ۔ یہ وہی عکرمہؓ بن ابی جہل ہیں جنھوں نے اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا لیکن جب دامنِ رسولؐ میں پناہ ملی تو اپنی جان پر کھیل کر شکست کو فتح سے بدل دیا ۔
اﷲ تعالیٰ اُمت محمدیہؐ کے ہر فرد کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ وہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلیں۔ آمین