اپاس ایس ایس سی اور انٹر کا اسٹڈی میٹرئیل نہ ملنے پر طلبہ پریشان

حیدرآباد 25 فروری (محمد ریاض احمد) آندھراپردیش اوپن اسکول سوسائٹی (APOSS) ترک تعلیم کرنے والے لڑکے لڑکیوں کیلئے ایک نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ 2008-09 ء میں اپاس ایس ایس سی کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں اب تک تلنگانہ اور آندھرا میں ہزاروں لڑکے لڑکیوں نے اپنے پسند کے مضامین اور سہولت کے مطابق دسویں جماعت میں کامیابی حاصل کی۔ اس طرح جب 2010-11 ء کے دوران اوپن انٹرمیڈیٹ شروع کیا گیا اُس وقت یہ کورسیس ترک تعلیم کرنے والے انٹرمیڈیٹ طلباء و طالبات کیلئے بڑا کارآمد ثابت ہوا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد میں دو سو سے زائد اسٹڈی سنٹرس ہیں اور ہر سنٹر میں اپاس (ایس ایس سی) کے کم از کم 100 اور اپاس انٹرمیڈیٹ کے دو سو تا دو سو پچاس طلباء و طالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں لیکن ان مراکز کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ امتحانات کیلئے بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ یہ امتحانات آئندہ ماہ منعقد ہونے والے ہیں لیکن ابھی تک ان مراکز کو نصابی کتب فراہم نہیں کی گئیں۔ اس سلسلہ میں اپاس اسٹڈی سنٹرس کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ اگر بُکس وغیرہ دستیاب نہ ہوں تو بچے کس طرح امتحانات کی تیاری کریں گے۔ اس ضمن میں ڈائرکٹر آندھراپردیش اوپن اسکول سوسائٹی سے بارہا نمائندگی کی گئی لیکن اس کے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ پرانا شہر میں اپاس کا سنٹر چلانے والی ایک خاتون سماجی جہدکار کے مطابق اپاس کے باعث شہر میں ایسے بے شمار لڑکے لڑکیوں کو اپنی پسند کے مضامین کا انتخاب کرتے ہوئے اوپن ایس ایس سی اور انٹرمیڈیٹ میں کامیابی حاصل کی۔

اپاس انٹرمیڈیٹ کی خوبی یہ ہے کہ یہ کورس کامیاب کرنے والے سائنس گروپ کے طلبہ ایمسٹ بھی لکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرمیڈیٹ دو سال کے بجائے ایک سال میں مکمل ہوجاتا ہے۔ بعض اسٹڈی سنٹرس کے ذمہ داروں نے راقم الحروف کو بتایا کہ اسٹڈی میٹریل طلبہ کے اڈمیشن کے ساتھ ہی دیا جاتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں کیا گیا جس سے طلبہ اولیائے طلباء اور اسٹڈی سنٹرس چلانے والوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈائرکٹر اپاس کس طرح اس مسئلہ سے نمٹتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ آندھراپردیش اوپن اسکول سوسائٹی کے کورس ترک تعلیم کرنے والے طلبہ کیلئے ایک طرح سے غیرمعمولی سہولت ہے۔ اوپن اسکول کے تحت ہر اتوار کو کلاسیس ہوتی ہیں۔ یہ کورسیس کرتے ہوئے طلباء و طالبات اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں پرانا شہر میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام سماجی و مذہبی تنظیمیں بخوبی انجام دے سکتی ہیں۔