اٹل بہاری واجپائی ‘ ایک دور کا خاتمہ

سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی پنہاں ہوگئیں
اٹل بہاری واجپائی ‘ ایک دور کا خاتمہ
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا انتقال ہوگیا ۔ وہ ہندوستان کے قد آور سیاستدان کے علاوہ ایک مدبر ‘ قابل منتظم ‘ بہترین مقرر ‘ ذی فہم شاعر اور جہد کار تھے ۔ حالانکہ وہ ابتداء سے جن سنگھ ‘ آر ایس ایس وغیرہ میں شامل رہے اور پھر بی جے پی کی بنیاد بھی ڈالی تاہم ان کے نظریات سے اختلاف کے باوجود ہندوستانی سیاست میں ان کا ہمیشہ احترام کیا گیا ۔ ان کی شخصیت کو نزاعات سے پاک سمجھا جاتا تھا اور انہیں ایک غلط پارٹی میں درست شخصیت بھی قرار دیا جاتا رہا ہے ۔ اٹل بہاری واجپائی ہندوستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہے ۔ وہ پہلے 13 دن کے وزیر اعظم بنے ‘ پھر وہ 13 ماہ کیلئے وزیر اعظم رہے اور پھر 1999 سے 2004 تک ایک پوری معیاد کیلئے وہ وزارت عظمی پر فائز رہے ۔ وہ پہلے غیر کانگریسی لیڈر تھے جنہوں نے وزارت عظمی پر اپنی معیاد مکمل کی تھی ۔ اس کے علاوہ اٹل بہاری واجپائی کو یہ اعزاز بھی تھا کہ وہ 12 معیادوں کیلئے پارلیمنٹ کے رکن رہے ۔ وہ 10 مرتبہ لوک سبھا کے رکن بنے تھے اور دو مرتبہ راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے ۔ وہ پہلے پارلیمنٹیرین تھے جو ملک کی چار ریاستوں سے منتخب ہوئے تھے ۔ حالانکہ اپنی سیاسی زندگی میں انہیں ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا لیکن وہ جہد مسلسل میں یقین رکھتے تھے اور ان کی جدوجہد کے نتیجہ میں وہ وزارت عظمی پر فائز ہونے میں بھی کامیاب ہوئے تھے ۔ وہ اس سے قبل جنتا پارٹی کی حکومت میں ملک کے وزیر خارجہ بھی رہے ۔ انہیں یہ بھی اعزاز حاصل رہا کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے انہوں نے جنیوا میںمنعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میںمسئلہ کشمیر پر ہندوستان کی نمائندگی کی تھی ۔ اس وقت کے نرسمہاراو وزیر اعظم تھے اور انہوں نے اس کانفرنس میںہندوستان کی نمائندگی کیلئے اٹل بہاری واجپائی کو روانہ کیا تھا ۔ اٹل بہاری واجپائی کو جہاں بی جے پی میں سب سے بڑا لیڈر سمجھا جاتا تھا وہیں انہیں اپوزیشن کی صفوں میں بھی عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا ۔ بی جے پی سے شدید نظریاتی اختلاف رکھنے والے بھی کم از کم واجپائی کی شخصیت کے معترف رہے تھے ۔
اٹل بہاری واجپائی زمانہ طالب علمی سے ہی عوامی زندگی میں شامل ہوگئے تھے ۔ ان کے دور وزارت عظمی میں انہوں نے کشمیر مسئلہ کی یکسوئی کی کوشش کی تھی ۔ انہوںنے انسانیت ‘ جمہوریت اور کشمیریت کا نعرہ دیا تھا اور اس کے تحت وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اپنے عزائم کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان کی سمت دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے دونوںممالک کے مابین بس کا سفر شروع کیا تھا ۔ انہیں کے دور میں آگرہ میں ہندوستان و پاکستان کے مابین چوٹی کانفرنس میں مسئلہ کشمیر یکسوئی کے قریب پہونچ گیا تھا تاہم عین وقت پر کچھ پس پردہ طاقتوں نے اس کوشش کو بھی ناکام بنادیا تھا ۔ جس وقت گجرات میں مسلم کش فسادات ہوئے اور مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اس وقت واجپائی وزیر اعظم تھے ۔ انہوں نے گجرات کا دورہ کرنے کے بعد یہ تبصرہ کیا تھا ’ میں اب باہر کس منہ سے جاونگا ‘ ۔ ان کے اس ریمارک کو گجرات حکومت اور اس وقت کے چیف منسٹر نریندرمودی کے خلاف سخت ترین ریمارک سمجھا گیا تھا ۔ اٹل بہاری واجپائی اس وقت نریندر مودی کو گجرات چیف منسٹر کے عہدہ سے بھی ہٹادینے تیار ہوگئے تھے لیکن اس فیصلے میں ایل کے اڈوانی رکاوٹ بن گئے تھے ۔ انہوں نے ماضی میں مودی کا تحفظ کیا تھا اور بعد میں یہی مودی ‘ اڈوانی کیلئے وزارت عظمی کی راہ میں اصل رکاوٹ بن گئے اور انہیں پس منظر میں ڈھکیل دیا ۔
اٹل بہاری واجپائی کے اقتدار میں ہندوستان میں سڑکوں کی بہتری کا عمل شروع کیا گیا تھا اور چار لین سڑکیں بچھانے کے کام کو واجپائی نے آگے بڑھایا تھا ۔ اٹل بہاری واجپائی کے دور اقتدار ہی میں پوکھرن میں ہندوستان نے اپنا دوسرا نیوکلئیر تجربہ کیا تھا ۔ واجپائی کو ایک اصول پسند شخصیت قرار دیا جاتا تھا اور انہیں بھارت رتن سے بھی سرفراز کیا گیا تھا ۔ اکثر گوشے واجپائی کو بی جے پی سے الگ کرکے دیکھتے اور ان کی صلاحیتوں کی ستائش کرتے ۔ ان کے تدبر اور صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ۔ شخصی طور پر سبھی ان کو ایک قدر آور سیاستدان اور مدبر تسلیم کرتے تھے ۔ ان کا انتقال ایک طرح سے ایک دور کا خاتمہ ہے ۔ طالب علمی کے زمانے سے اس دور کا آغاز ہوا تھا اور آج اس کا اختتام عمل میں آیا ۔