مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ
آہ ! فلسطین کی مبارک سر زمین اس وقت ظالموں نے قبضہ کر رکھی ہے،وہ فلسطین جو کبھی انبیاء اکرام علیھم السلام کی سر زمین رہی ہے جس کے اطراف و اکناف للہ سبحانہ نے برکتیں و رحمتیں گھیر رکھی ہیں،حضرت سید نا محمدﷺ کے مبارک سفر اسراء کی اہم منزل مسجدِ اقصی رہی ہے جو اسلامی تاریخ اور اُس کے عظیم تہذیبی و رثہ کے لحاظ سے قابل ِ تقدیس ہے ، مکۃ المکرمہ و مدینۃ المنورہ کی طرح فلسطین میں واقع مسجد ِ اقصی کی طرف سفر کی نیت سے جا نا بے نہایت اجر و ثواب کا موجب ہے ، لیکن افسوس جہاں ظلم و بر بریت کا کھیل کھیلا جا تارہا ہے، فلسطین ظلم و ستم کی آندھیوں کی زد میں رہاہے، حالیہ واقعات انسانیت کی پیشانی پر بد نما داغ ہیں، فلسطینی ظلم کی چکی میں پیسے جاتے رہے ہیں ان کی داستانِ غم نا قابل بیان ہے، اسرائیل کی طرف سے ظالمانہ و سفاکانہ کاروائیاں جاری رہی ہیں، فلسطینیوں کو انسانوں کے بے رحم ہاتھوں نے جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے، اوران کو اپنے ہی ملک میں بے یار و مددگار کر دیا گیا ہے، اور ا ن کی آزادی چھین کر غلامی کی زندگی جینے پر مجبور کیا جا رہا ہے ، فلسطین پر نا جائز قبضہ کر کے فلسطینیوں کو اُن کی زمین سے محروم کر نے کی سازش رچائی جا رہی ہے،یہ تو اُنکے گھر میں گُھس کر تباہی مچانے کے مترادف ہے، کون ہے جو اس صورتِ حال میں اپنا دفاع نہ کرے ،وہ اپنی دفاعی پوزیشن کے با وجودغیر منصفانہ ماحول کی وجہ دوسروں کی حمایت سے محروم ہیں ، ان نا گفتہ بہ حالت میں وہ زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگے ہیں،اسرائیلی درندگی کی انتہا یہ ہے کہ فلسطین میں نوجوان اور ضعیف و کمزور مرد و خواتین یہاں تک کہ معصوم بچے بھی اسرائیل کی ظالمانہ و سفاکانہ کاروائیوں کی وجہ یا توموت و زیست کی کشمکش میں مبتلاء ہیں یا پھر موت کی آغوش میں پہونچ رہے ہیں یہ کیسی غیر انسانی جنگ ہے جو انسانوں کے روپ میں درندوں نے چھیڑ رکھی ہیں، آخر اس غیر انسانی کھیل کے پیچھے کن کا ہاتھ ہے، اور کون ہے جو ایک ایک کر کے مسلم ملکوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جوجس پر سارے عالم کے مسلمانوں کو ایک جٹ ہو کر غور کرنے کی ضرورت ہے، زائد از سات ہفتوں سے غزاء خون میں نہاتا رہا ہے ، انسانی آبادیوں ، مکاتب و شفاخانوں پر بم بر سائے گئے ہیں، نہتے فلسطینیوں پر مزائیل داغے جاتے رہے ہیں۔
اسرائیل کے فضائی حملوں سے رہائشی مکانات ودیگرسرکاری و غیر سرکاری اداروں کی عمارتیں تباہ و تاراج ہوتی رہی ہیں، منہدمہ مکانات کے ملبہ سے مکینوں کی کراہیںغم ناک منظر پیش کرتی رہی ہیں، بر وقت جن زخم خُوردہ و مجبور مظلو موں کی مدد ہو پار ہی تھی وہ طبی امداد کی وجہ راحت پا رہے ہیں، اور ان میں کچھ وہ بھی ہیں جو امداد ملنے کے باوجودیا پھرطبی امداد سے محروم موت کی آغوش میں پہونچ گئے ہیں، پتہ نہیں وہ کتنے ہونگے جو ملبہ کے نیچے دم توڑ چکے ہو نگے، عام شاہراہوں پر بھی مظلوم فلسطینیوں کی نعشوں کے بکھرے چیتھڑے اپنی مظلومیت کی تصویر پیش کرتے رہے ہے ، معصوم بچوں کو اتنی کثرت سے موت کی گھاٹ اُتارا گیا ہے کہ اُن کی تدفین مشکل ہو گئی تھی شفا خانوں کے مُردہ خانے تنگی داماں کا شکوہ کر رہے تھے جس کی وجہ اُن کی معصوم لاشیںگھروں کے فریزر میں رکھنے کی خبریں اخبارات کے ذریعہ مل رہی تھیں، وہ بچے جو اس وقت زندہ ہیں
وہ اطراف و اکناف کے غم زدہ ماحول کی وجہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے ہیں، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے اک رپورٹ میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اس وقت فلسطین میں چار لاکھ سے زائد بچے نفسیاتی الجھن کا شکار ہو گئے ہیںفوری طور پر اُن کا تحفظ ضروری ہے، اسرائیل کی ظالمانہ بر بریت نے اُن کو اپنے خوشگوار مستقبل کے خوابوں کی تکمیل سے محروم کر دیا ہے یہ وہ بچے ہیں جنھوں نے اپنے ماں باپ کو کھو دیا ہے یا اُن کے ساتھ کھیلنے والے اپنے بہنوں، بھائیوں ، دوستوں اور ہم جولیوں سے وہ محروم کر دئیے گئے ہے، ذرائع ابلاغ کے توسط سے جو مناظر دیکھے جاتے رہے ہیں وہ انسانوں کا دل دہلا رہے ہیںاور خون کے آنسو رونے پر مجبور کر رہے ہیں، اس وقت اقوام متحدہ ہو یا وہ ادارے جو انسانیت کا نہ صرف دم بھرتے ہیں بلکہ جانوروں سے بھی ہمدردی کو انسانیت گرَدانتے ہیں، پتہ نہیں وہ کہاں ہیںاور اس منصوبہ بند قتل و غارت گری پر وہ آخر کیوں خاموش ہیں،تازہ اخباری اطلاع کے مطابق غزاء میں مصر کی ثالثی کی وجہ جنگ بندی کے نئے معاہدے پر انچاسویں دن ہر دو کی رضا مندی ہو چکی ہے، اس معاہدے کے باضابطہ سرکاری اعلان کا امکان ظاہر کیا گیا ہے،لیکن جنگ بندی کا آغاز کب سے ہو گا اس پر تبصرہ کر نے سے موسی ابو مرزوق جو حماس کے مذاکرات کارہے اس پر تبصرے سے انہوں نے انکار کر دیا ہیں،
افسوس کے جنگ بندی کے معاہدے کی رضا مندی کے ایک دن بعد ہی یعنی پچاسویں دن ایک بار پھر غزاء پر اسرائیل نے سخت بم باری کی، جس سے کثیر منزلہ عمارت زمین دوز ہو گئی کئی ایک مساجد کے ساتھ چھ فلسطینیوں کے شہید ہو جانے کی اطلاع ہیں اس تناظر میں دنیا بھر میں رہنے والے اُن انسانوں کا جو اپنے سینے میں دل رکھتے ہیںاور انسانیت کے درد سے انکا دل تڑپتا ہے یہ فرض بنتا ہے کہ و ہ مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں ، اب یہ مسئلہ اسلام و کفر کی حدوں سے آگے بڑھ کر انسانیت کاہو گیا ہے، انسانی رشتہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ظالم کے بجائے مظلوم کا ہاتھ تھاما جائے او ردل و جان سے اُس کی ہر طرح مدد کی جائے، غیر اسلامی اور اسلامی ملکوں میں رہنے والے سارے انسانوں کا فرض ہے کہ وہ ہر طرح ظالم اسرائیل کو کمزور کر نے کی کوشش کریں، اور اپنے سے جو بن پڑے وہ کر گزریں خاص طور پر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ،اسرائیل کے مالی موقف کو کمزور کرنے میں بڑا ممد و معاون ثابت ہوا ہے،بشمول ہندوستان ساری دنیا میں کئی ایک سیکولر و سنجیدہ افراد نے اسرائیلی مصنوعات کا مقاطعہ کیا ہے، عید الفطر کے موقع پر نیسلے دودھ کا ہندوستانی مسلمانوں نے بائیکاٹ کیا، اسکے علاوہ کوکاکولا، پیسی، اسپرائٹ جیسے مشروبات کا ملک بھر میں مسلم بھائیوں کے ساتھ انسانیت نواز غیر مسلم برادرانِ وطن نے بھی بائیکاٹ کیا، اخباری اطلاع کے مطابق اس کی وجہ سے اُن کی قیمتوں میں نصف حد تک گراوٹ آگئی ہے، اور وہ بہت سی اسرائیلی مصنوعات جو معصوم بچوں کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے بازاروں میں دستیاب ہیں اُن سے بھی بڑے پیمانے پر احترازکی ضرورت ہے جو عام طور پر طبی نقطہِ نظر سے بھی بچوں کے لئے مضرت رساں ہیں۔ ماوٰں کو چائیے کہ اُ س کے متبادل کے طور پر اپنی حُسن تدبیر سے تازہ و عمدہ اشیاء پر مبنی عمدہ فطری غذائیں تیار کر کے بچوں کو کھلائیں جیسا کہ سابقہ دور میں مائیں اپنے بچوں کے لئے اُنکی مناسبت سے گھریلو غذائی اہتمام کیا کر تی تھیں۔