آسام میں مسلمانوں کا قتل عام

ہمارا خون کہاں یونہی بہتا رہتا ہے
خبر کی سرخیوں میں رنگ بھرتا رہتا ہے
آسام میں مسلمانوں کا قتل عام
آسام کے بوڈو علاقہ میں مسلمانوں کا قتل عام ملک میں فرقہ پرستوں کے بڑھتے اثرات کا پہلا خطرناک اشارہ ہے۔ اس علاقہ میں 24 اپریل کو ہی رائے دہی ہوئی تھی جہاں بوڈو اور غیر قبائیل امیدوار کے درمیان سخت مقابلہ دیکھا جارہا ہے۔ کانگریس حکومت میں آسام کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور فرقہ پرستوں کی کارروائیوں کو کھلی چھوٹ ملنے کے بدترین اور المناک واقعات رونما ہورہے ہیں۔ بوڈو تنظیمیں اس علاقہ کے مسلمانوں کو اس لئے نشانہ بنارہے ہیں کیوں کہ بعض فرقہ پرست لیڈروں نے تارکین وطن کو سبق سکھانے کا نعرہ دے کر انتخابی مہم چلائی تھی۔ گزشتہ ہفتہ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو نکال باہر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اُنھوں نے کہا تھا کہ انھیں اقتدار مل جائے تو وہ بنگلہ دیش تارکین وطن کو قریبی ریاست مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کو واپس بھیج دیں گے۔ ریاستی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ تارکین وطن کے ساتھ وہ نرم رویہ رکھتی ہے۔ بی جے پی کے تقریباً قائدین کی انتخابی مہم اسی نکتہ پر محیط تھی۔ پولنگ کے ختم ہوتے ہی بوڈو انتہا پسندوں کی خون ریز کارروائی سکیورٹی انتظامات اور سکیورٹی دستوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اس علاقہ میں گزشتہ ہفتہ ہی حالات حسب معمول پر تھے۔ اچانک اے کے 47 کے ساتھ بوڈو انتہا پسندوں کی ٹولیاں آسام کے 3 اضلاع کوکھرا جھار، بکشا اور چرانگ میں موت کا ننگا ناچ کرتے ہوئے مسلمانوں کو شہید کردیا اور سکیورٹی فورسیس اور حکومت اس سے بُری طرح بے خبر اور مجرمانہ غفلت کا شکار رہی۔ یہ انتہا پسندانہ سوچ اور تارکین وطن یا فرقہ پرستی کے مسئلہ کوں یوں ہی نظرانداز کردیا گیا تو ملک کا سکیورٹی نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کے عزائم اس ملک کے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ حکومت ہند اپنے دستوری فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کا مظاہرہ کرے گی تو ملک کی اقلیتوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے کا دستوری فریضہ فرقہ پرستوں کی خون ریز کارروائیوں کی نذر ہوجائے گا۔ یہ وہ بھیانک اور عوام دشمن نظام ہے جو کبھی اقلیت کی چادر کے نیچے اور کبھی جمہوریت کا ماسک پہن کر انجام دیا جارہا ہے۔ فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں اگر ملک کا سارا نظام آجائے تو اقلیتوں کی زندگیاں کس دار پر ہوں گی یہ بھی کسی المناک سانحہ سے کم نہیں ہوں گی۔ یہ ملک دستوری و جمہوری بنیادوں پر چلے یا سیکولرازم کا نقاب اوڑھے میٹھی نیند سوجائے فرقہ پرستوں کے ناپاک منصوبے بہرحال روبہ عمل لائے جائیں گے۔ آسام میں جو کچھ ہوا وہ فرقہ پرستوں کے منصوبوں کا حصہ ہے۔ آسام کے خون ریز واقعات کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ ہندوستان میں فرقہ پرستوں کا کس حد تک راج رہے گا۔ اس بات میں تو پہلے بھی کوئی شک نہیں تھا مگر ملک کی سیکولر پارٹیوں اور ان کی حکومت کی موجودگی سے یہ ہمت بندھی تھی کہ حالت بہتر ہوگی مگر جیسے جیسے انتخابات کا مرحلہ ختم ہورہا ہے۔ ملک پر فرقہ پرستوں کی لمبی سیاہ اور تاریک رات طاری ہوتی نظر آرہی ہے۔ آسام کی طرح واقعات کو ہوا دی جائے تو ملک میں سیکولرازم آخری سانس لیتے ہوئے دکھائی دے گا۔ لہذا مسلمانوں اور سیکولر عوام کو امن و امان کی برقراری، قتل و غارت گری کے سدباب کے لئے اپنے فرائض وطن کو فوری بروئے کار لانے ہوں گے۔ اگر مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر پہونچ جائے تو گجرات کی طرح سارے ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے اور گجرات لیباریٹری کا تجربہ کرنے کا ارادہ رکھنے والوں کو اپنے مفادات کے حصول کے لئے بڑھنے والوں کو روکنا ہوگا اور یہ تب ہی ممکن ہے جب مسلمانوں کی اپنی ایمانی طاقت اور حوصلے ہونے کا زندہ ثبوت دیا جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب مسلمان فرقہ پرستوں کو مؤثر سبق سکھانے کے لئے اس ملک کی جمہوری و دستوری اداروں کا مؤثر استعمال کرتے ہوئے اپنی طاقت اور وجود کو منوائیں۔ مسلمانوں کے قتل عام واقعہ پر وزیراعظم منموہن سنگھ نے اظہار افسوس کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ اس بزدلانہ حرکت کی اصل وجہ فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے والوں کی سرگرمیوں پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی کا بھی انھیں نوٹ لینا چاہئے۔ چیف منسٹر آسام ترون گوگوئی نے بوڈو انتہا پسند گروپ کے تشدد کی تحقیقات قومی تحقیقاتی ایجنسی کے تفویض کرنے پر زور دیا ہے لیکن مسلمانوں کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے کسی بھی قسم کی عدم دلچسپی سے مستقبل میں اس سے زیادہ بھیانک واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ اگر قاتلوں کو سردست گرفتار کرکے انھیں فی الفور سزا دی جائے تو انصاف کا تقاضہ پورا ہوگا لیکن ہر کیس اور ہر واقعہ کے بعد قاتل آزاد پھرتے ہیں تو فرقہ پرستوں کی ہمت مزید بڑھ جاتی ہے۔ آسام میں بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار مودی کی تقریر کا اگر سخت نوٹ لیا جائے تو حکومت ہند کو اس مسلم قتل عام واقعہ پر فوری کارروائی کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی مگر سوال یہ ہے کہ آیا حکومت ہند میں اتنی جرأت ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کی گردن ناپ سکے؟
ہندوستانی آم : یوروپی یونین کی پابندی
یوروپی یونین کی 8 رکنی ٹیم نے ہندوستانی آم کی درآمدات پر پابندی عائد کردی ہے۔ برآمد کنندگان اور صارفین کی جانب سے شدید تنقیدوں کے باوجود یہ پابندی ڈسمبر 2015 ء تک لگائی گئی ہے۔ برطانیہ کو ہر سال ہندوستان سے 68 ملین پونڈس آم درآمد کیا جاتا تھا۔ 2013 ئمیں فروٹ اور ترکاریوں کے 207 جہاز کو آلودہ فوڈ کے طور پر پایا گیا ہے۔ یوروپی یونین کی اس کارروائی سے ہندوستان کو فطری طور پر مایوسی ہوگی۔ ہندوستان آم کی پیداوار میں اول درجہ کا حامل ملک ہے۔ہر سال بیرون ملک 70,000 ٹن آم برآمد کیا جاتا رہا ہے۔ یوروپی یونین نے ہندوستان کی دیگر سبزیوں پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ ان میں بیگن، اروی، ککڑی اور چوقندر شامل ہیں۔ ملک کے معروف آم الفولٹو اور چار سبزیوں پر پابندی افسوسناک ہے۔ 28 ممالک پر مشتمل یوروپی یونین کے صحت کے شعبے کی ایک مستقل کمیٹی کا یہ فیصلہ ہندوستانی کسانوں، تاجروں ار مارکٹ کو مایوس کردے گا۔ ہندوستانی مارکٹ سے درآمد ہونے والے آموں میں جراثیم مادے سے آلودہ ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے یوروپی یونین نے یہ وضاحت کی کہ اس آلودہ پھل سے یوروپ کی زراعت اور پیداوار کو خطرہ لاحق ہے۔ اس کا یہ اعتراض اور شکایت کو سائنسی نکتہ نظر سے دیکھا جانا چاہئے۔ حکومت ہند کو بھی یوروپی یونین سے بات چیت کے ذریعہ پابندی برخاست کرانے پر زور دینا چاہئے۔ برطانیہ میں ہندوستانی آم کی زبردست طلب تھی۔ ہر سال ایک کروڑ 60 لاکھ آم درآمد کیا جاتا ہے۔ اس کی قیمت 60 لاکھ پاؤنڈ کے قریب ہوتی ہے۔ یوروپی یونین کی پابندی کے بعد ہندوستان میں جاریہ موسم کے دوران آموں کی قیمت میں کمی آئے گی اس سے مقامی عوام کو پھلوں کے بادشاہ آم کی خریداری منفعت بخش ہوگی لیکن آم کی کاشت کرنے والے کسانوں کو نئے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مرکزی وزیر کامرس آنند شرما کو اس خوص میں فوری قدم اُٹھاتے ہوئے یوروپی یونین کے اس یکطرفہ اقدام پر بامعنی مذاکرات کرنے چاہئے۔ یوروپی یونین کو بھی اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرنی چاہئے کیوں کہ اس کا فیصلہ غیر منصفانہ متصور ہورہا ہے۔