سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ بعض لوگ ’’ السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں اور بعض ’’ سلام علیکم‘‘ کیا دونوں طر یقے صحیح ہیں ؟ ان میں سے بہتر طریقہ کونسا ہے۔ بچوں عورتوںکے سلام کا بھی یہی طر یقہ ہے یا اس میں کوئی فرق ہے۔ آداب ، قدمبوسی، تسلیم وغیرہ الفاظ جو استعمال کئے جاتے ہیں۔ کیا ان سے بھی سلام ادا ہوجاتا ہے ؟
جواب : السلام علیکم الف لام کے ساتھ کہنا بہتر ہے اور بغیر الف لام کے تنوین کے ساتھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ سلام میں عورتیں بچے سب برابر ہیں۔ سب کو السلام علیکم کہنا چاہئے ۔ آداب ، بندگی، قدمبوسی، تسلیم کورنش وغیرہ کہنے سے مسنون سلام ادا نہیں ہوتا۔ کنزالعباد ص ۹۴۳ میں ہے : فی الظھیریۃ و لفظۃ السلام فی المواضع کلھا ’’ السلام علیکم‘‘ او ’’ سلام علیکم‘‘ بالتنوین و بدون ھذین اللفظین کما یقول الجھال لاَ یکفی سلاما ۔
شاگرداستاذ کے ساتھ عجز و انکساری سے پیش آئے
سوال: کیافرماتے ہیںعلمائے دین اس مسئلہ میںکہ آج کل نوجوان بچوں میں اساتذہ کا ادب ‘ان کی تعظیم و تکریم کا جذبہ بالکل ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ازروئے اسلام استاذ کے حقوق شاگردوں پر کیا ہیں اور جو اساتذہ کے حقوق کو نہیں مانتے ان کے لئے کیا وعید ہے ۔اختصار کے ساتھ استاذ کے آداب اور حقوق بیان فرمائیںتو ہمارے نونہالوں کیلئے مفید ہوگا ۔ ؟
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہامیں شاگرد پر لازم ہے کہ علم کو ذلت کی نگاہ سے نہ دیکھے ۔اوراستاذ کی اطاعت میں سرمُو کوتاہی نہ کرے ‘استاذ پر ایسا اعتقاد رکھے جیسے جاہل بیمار ‘ماہر ڈاکٹر کی نصیحت پر یقین رکھتا ہے ‘ استاذ کیساتھ نہایت عجز و انکساری سے پیش آئے ۔ اور ان کی خدمت گذاری سے شرف و ثواب حاصل کرتا رہے۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ہونے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ کی سواری کی رکاب تھام لی تھی اور حضرت زید بن ثابت ؓ کے اصرار پر بھی آپ نے رکاب نہیں چھوڑی ‘اور یہ فرمایا کہ ہم کو علماء اور بزرگوں کی اسی طرح تعظیم و تکریم کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ تب حضرت زید بن ثابت ؓ نے اہلبیت کی فضیلت کے لحاظ سے حضرت ابن عباس ؓ کے ہاتھ پر بوسہ دیا۔
استاذ جو کچھ کہتا ہے اس کو نہایت عجز و انکساری کے ساتھ سنے اور استاذ کا احسان مان کر اس کا شکریہ ادا کرے اور اپنی رائے کو چھوڑ دے ۔ ہر بات کو خاموش سنتا جائے ‘ غیر ضروری سوال نہ کرے ‘ جس سوال کا استاذ جواب نہ دیں تو اس کو تنگ نہ کرے ۔ اور جو بات اپنے سمجھنے کی اور اپنے درجہ کی نہیں اگر اس کے بتانے میں استاذ عذر کرے تو استاذ پر اصرار نہ کریں ‘ اگر کسی سوال کا استاذ جواب نہ دے سکے تو اس کی توہین نہ کرے ۔ اور استاذ کے بھیدوں اور خانگی باتوں کو کسی پر ظاہر نہ کرے ‘ اور اس کی برائی کو پوشیدہ رکھے۔ استاذ کے روبرو کسی کی غیبت نہ کرے۔ اور استاذ کی ذلت کے درپے نہ ہو ‘ اگر استاذ سے کسی بات میں لغزش اور غلطی ہوجائے تو اسے درگذر کرے‘ اور اللہ کے واسطے اس کی تعظیم و توقیر کا اہتمام کرے ۔ مجلس میں استاذ کے آگے بڑھ کر نہ بیٹھے‘ اور جب کبھی استاذ کو دینی یا دنیوی کوئی ضرورت لاحق ہو تو سب سے پہلے اس کی حاجت پوری کرے ۔ پس جو شخص استاذ کے آداب کو ملحوظ نہیں رکھتا وہ دنیا میں ذلیل و خوار اور علم سے محروم رہے گا اور آخرت میں اپنی بے ادبی ‘تکبر اور ایذا رسانی کی سزا پائے گا ۔ فقط واﷲ أعلم