اِنصاف کا اِنکاؤنٹر

ہندوستانی عوام کو بے وقوف بنانے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ سہراب الدین شیخ فرضی انکاؤنٹر کیس میں تمام ٹھوس شواہد ہونے کے باوجود سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے واضح ثبوت نہ ہونے کا عذر پیش کرکے صدر بی جے پی امیت شاہ کو تمام الزامات منسوبہ سے بری کردیا۔ امیت شاہ پر اغوا و قتل کے علاوہ زبردستی رقومات کی وصولی کے مقدمات تھے۔ سہراب الدین شیخ اور ان کی اہلیہ کوثر بی کا جس وقت قتل ہوا تھا، امیت شاہ گجرات کے وزیر داخلہ تھے۔ پولیس عہدیدار اور ساری سرکاری مشنری کو اپنے اشاروں پر نچانے کا تاریخی مظاہرہ کرنے والی بی جے پی کو عوام نے مرکز کا اقتدار حوالے کرکے کئی معاملوں میں من مانی کرنے کا نوٹس نہیں دیا ہے بلکہ عوام اس حکومت کے ہر قدم کو جانچ رہے ہیں۔ سی پی آئی ایم کے لیڈر سیتا رام یچوری نے امیت شاہ کی برأت کو اصل فرضی انکاؤنٹر قرار دیا ہے۔ سی بی آئی کا بے جا استعمال کرنے کی یہ زندہ مثال ہے۔ پی ایم او کے تحت کام کرنے والی سی بی آئی نے ملک کے قانون کی آنکھ میں دھول جھونکا ہے تو اس کا برا اثر مستقبل پر پڑے گا۔ نریندر مودی کے حامیوں کے حوصلے مزید بلند ہوں گے کیونکہ آج قانون کی عدالت سے ایک اور مجرم کو کلین چٹ مل گیا ہے۔

سی بی آئی کو اپنا طوطا بنالینے والی مرکزی حکومت کو ملک کے نظام انصاف کو مسخ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے لیکن مودی حکومت نے اس نظام انصاف کو ہی اپنے پیروں تلے روند دیا ہے تو اچھائی کی توقع فضول ہوگی، لیکن ایک دن فیصلہ کا دن ہوتا ہے جس وقت عوام کو گمراہ کرنے والی طاقتوں کو سبق سیکھنے کو ملے گا۔ نریندر مودی حکومت میں معاشرے کے زوال پذیر ہونے ، انسانی اقدار کے انحطاط اور بعض اقدار کے معنی و مطلب کھودینے کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ بی جے پی اور اس کی حامی تنظیموں نے میدان سیاست کا مفہوم ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ گجرات میں جو کچھ اندھادھند حکمرانی کی گئی تھی، اس کا سلسلہ مرکز تک برقرار رکھا جاتا ہے تو یہ ایک المیہ سے کم نہیں ہوگا۔ ظلم و زیادتی کا شکار افراد کو انصاف نہیں ملے گا۔ خاطیوں کو برأت حاصل ہوگی۔ زعفرانی سیاست کی جنگاہ پورے عروج پر ہے۔ ہر ریاست کو گجرات بنایا جانے والا ہے۔ ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی نے چپ اختیار کرلی ہے تو دوسری طرف زعفرانی طاقتوں اور فرقہ پرستوں نے ایک ہی مورچہ میں جمع ہوکر اپنی توپوں کا رُخ ایک ہی فصیل یعنی اقلیت کی جانب کردیا ہے۔ یہ وہ فصیل ہے جس کے ہر برج اور منارہ پر ہندوستان کے لئے جذبہ قومیت بھرا ہوا ہے مگر اقلیتوں کو سبق سکھانے کیلئے زعفرانی طاقتوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔

امیت شاہ بی جے پی کو زبردست سیاسی کامیابی دلانے کا معاوضہ گھناؤنے الزامات سے برأت حاصل کرکے مل رہا ہے تو پھر وزیراعظم مودی اپنے دوست کے 12 خون بھی معاف کردیں گے اور حق دوستی ادا کرنے کا یہی ایک موقع ہے لیکن ان کا یہ اقدام حکومت کی قبا میں جابجا بدنامی کا پیوند لگاتا جارہا ہے۔ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ ’’میں خدا سے ڈرتا ہوں اور خدا کے بعد اس شخص سے ڈرتا ہوں جو خدا سے نہیں ڈرتا‘‘۔ آگ کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ کوئی بھی اس میں ہاتھ ڈالا تو وہ اس ہاتھ کو جلا ڈالے گی، لیکن بی جے پی والے زرّین اقوال کو نظرانداز کرکے زعفرانی خیالات کو آگ کا گولہ بناکر اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ بہرحال امیت شاہ کی برأت نے یہ سچ کر دکھایا ہے کہ اقتدار و طاقت ہو تو ہر چیز اپنی مرضی و منشاء کے مطابق بنائی جاسکتی ہے۔ جمہوریت کو اپنا مطیع بنایا جاسکتا ہے۔ قانون کو اپنی مٹھی میں کرلیا جاسکتا ہے۔ اس سارے تماشے میں سی بی آئی نے جو رول ادا کیا ہے، وہ افسوسناک ہے۔ مہینوں کی تحقیقات اور مشقت کے بعد مطلب براری کی رپورٹ تیار کی جاتی ہے اور سنسنی خیز نتیجہ برآمد کیا جاتا ہے تو انصاف کا گلہ گھوٹنے کا شرمناک مظاہرہ ہوتا ہے تو پھر ملک میں قانون اور سی بی آئی جیسے اداروں کا وجود صرف اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش رکھنے کیلئے ہے تو ایسے ادارہ کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ ہندوستان کو بہت سے مسائل نے گھیر رکھا ہے۔ اختیارات کا بے جا استعمال بھی ان میں سے ایک مسئلہ ہے۔ امیت شاہ کی برأت کے پیچھے کئی سنجیدہ سوالات پوشیدہ ہیں ۔ سی بی آئی کو ہی کئی نازک سوالات کا جواب دینا ہے اور ملک کے عوام کو یہ حق ہے کہ آخر ایجنسی نے ایک پارٹی کیلئے طوطے کا رول ادا کیوں کیا؟