اُمت مسلمہ کے درمیان اتحاد و اتفاق کی اہمیت

مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ

اسلام کے احکام کی اصل بنیاد کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ ہے۔ اجماع امت اور قیاس کوبھی شرعی احکام کا مصدر و مأخذ تسلیم کیا گیا ہے، اسکے ذیلی مصادر میں استحسان، مصالح مرسلہ، استصحاب اور سد ذرائع وغیرہ بھی ہیں جو تفصیل طلب ہیں۔ اسلام کے سارے ماننے والے خواہ وہ کسی گروہ و جماعت سے ہوں، سب کے سب کتاب و سنت سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اللہ کی کتاب میں آیات محکمات بھی ہیں اور آیات متشابہات بھی۔
بعد کے ادوار میں علماء نے بھی امت کی اصلاح و تربیت کی غرض سے کچھ طریقے جاری کیے تاکہ ان مواقع سے استفادہ کرتے ہوئے اسلام کے پیغام اور پیغمبر اسلامﷺ کے پاکیزہ عملی نمونہ و اسوۂ حسنہ سے ان کو روشناس کیا جاسکے۔ حضرت نبی پاک ﷺ کی محبت و عظمت اور اسلام کی حقانیت و صداقت کو ان کے دل و دماغ میں بسایا جاسکے، اسی طرح حضرات صحابۂ کرام اور امت کے ایسے علماء، اولیاء و صلحاء جو اپنے وقت کے مقتدا گزرے ہیں اور جنہوں نے اسلام کے شجر کی آبیاری میں اپنا خون و پسینہ لگایا ہے،

ان کو متعارف کروانے اور ان کی بیش بہا پاکیزہ عملی زندگی کے نقوش امت کے قلوب میں مرتسم کرنے کیلئے موقع و مناسبت سے پوری نیک نیتی، نصح و خیر خواہی کے سچے جذبات کے ساتھ ان کی یاد منانے اور ان کا تذکرہ سنانے کا طریقہ رائج کیا، ان کے ہاں اس کار خیر کیلئے دلیل موجود تھی انہوں نے ’’من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجر من عمل بہا‘‘ کی حدیث پاک سے روشنی حاصل کی تھی اور کچھ تو وہ طرق ہیںجس کو امت مسلمہ کے افراد نے جاری کرلیا۔ ایسے مسائل میں امت کے دردمند علماء و ائمہ نے غوروفکر کرکے اسلام کے بنیادی احکام سے ان کا کوئی تصادم محسوس نہیں کیا تو اس پر سکوت اختیار کرلیا لیکن آگے چل کر ایسے مسائل امت کے درمیان بڑے اختلاف و انتشار کا ذریعہ بن گئے، اسلام کے منصوص عقائدواحکام سے زیادہ ان کی اہمیت بن گئی۔بعض دینی مراکز بھی ان ہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، امت کا ایک طبقہ عملاً اس کو حق و باطل کے اختلاف کی طرح ماننے لگا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ امت کے ساتھ علماء بھی منقسم ہوگئے ہیں۔ موجودہ حالات پہلے سے کہیں زیادہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ امت مسلمہ ان سارے اختلافات کو بازو رکھتے ہوئے کلمہ کی بنیاد پر اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کرے۔ اسلام اور اہل اسلام پر ساری دنیا میں اس وقت باطل طاقتوں کی یلغار ہے ایسے میں مزید غفلت برتی جائے اور ان اختلافات سے دامن نہ چھڑایا جائے تو سخت اندیشہ اس بات کا ہے کہ امت مسلمہ اپنے مقصد حیات میں ناکام ثابت ہو اور ذلت و نکبت، ناکامی و ہزیمت اس کے دامن گیر رہے۔ اس درد و کرب کو ہر دور کے مخلص علماء نے محسوس کیا ہے

اور اپنی قیمتی آراء سے امت مسلمہ کو پوری دردمندی کے ساتھ اختلاف کے باوجود اتحاد و اتفاق بنائے رکھنے کی سخت تاکید کی ہے۔ چنانچہ اپنے وقت کے متبحر عالم دین اسلامیات کے ساتھ احوال زمانہ پر بڑی گہری نظر رکھنے والے امت کے دردمند کئی ایک علمی و اصلاحی کوششوں کے عملی مؤسس (Founder) سلاطین وقت کے استاذ، مربی و مشیر، بے نیاز مال و جاہ حضرت شیخ الاسلام علامہ انواراللہ فاروقی نوراللہ مرقدہ و قدس سرہ العزیز نے اپنی تالیف منیف ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ جلد دوم کے آخری سطور میں ساری امت کو جو پیغام دیا ہے وہ اس قدر قیمتی ہے کہ اس کو اسلام کے تمام طبقات مشعل راہ بنائیںتو پھر امت کے درمیان ایک ایسا عظیم اتحاد قائم ہوگا جو ’’بنیان مرصوص‘‘ ثابت ہوسکتا ہے اور پھر امت مسلمہ حدیث پاک ’’المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً‘‘ کے مصداق ایک مضبوط عمارت کی طرح طاقتور بن سکتی ہے ۔تقلید کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے غیر مقلدین کی طرف سے جو الزامات و اتہامات ائمہ مجتہدین و مقلدین پر کیے جاتے ہیں اس پر بڑے رنج و غم کا اظہار فرمایا اور اس روایت ’’تم آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ‘‘ کو پیش فرما کر آپسی اصلاح کی تلقین فرمائی۔ پھر آگے حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’چنانچہ اسی بنا پر ہمیشہ مار پیٹ و مقدمہ بازیاں ہوتی رہتی ہیں جس میں فریقین کا زور و زر بے انتہا خرچ ہوتا رہتا ہے اور اس خانہ جنگی کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ دوسرے اقوام اور اہل مذاہب باطلہ موقع پاکر اسلام پر حملہ پر حملہ کیے جاتے ہیں چنانچہ عقائد اسلامیہ میں خدشے پیدا کرکے لاکھوں مسلمانوں کو انہوں نے متزلزل کردیا، بلکہ عیسائی اور آریہ وغیرہ بنا ڈالا۔ اگر طرفین کے علماء متفقہ کوشش سے مخالفوں کی مدافعت کرتے تو کیا ممکن تھا کہ اسلام کے مقابلہ میں کوئی سر اُٹھا سکتا، افسوس ہے کہ جس قدر طبیعت کا زور ہے اس میں صرف کیا جاتا ہے کہ چند فقہی مسائل احادیث کے مخالف ثابت ہوجائیں، حالانکہ جب سے بخاری شریف بنی ہے یہی مسائل معرکۃالآراء رہیں اور طرفین سے سوال و جواب ہوا کیے جو کتابوں میں مذکور ہیں، اب ان باتوں سے کوئی فائدہ جدید نہیں ہوسکتا بلکہ نقصان یہ ہورہا ہے کہ اس خانہ جنگی نے دونوں گروہ کو ایسا باہم مشغول کر رکھا ہے کہ خبر تک نہیں کہ مخالفوں کے حملوں سے اسلام پر کیا گزر رہی ہے، خدائے تعالیٰ کو کیا جواب دیا جائے گا جب یہ سوال ہوگا کہ تمہاری خانہ جنگیوں نے ہزار دینداروں کو بے دین اور ضعیف الایمان بنا دیا اور اسلام کو ضعیف کردیا؟ کیا آیۂ شریفہ ’’ولاتنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم‘‘ وغیرہ آیات و احادیث تمہیں پہنچی نہ تھی۔ آخر میں حضرت شیخ الاسلام تحریر فرماتے ہیں:
’’بہر حال اس زمانہ میں یہ امر علماء کے پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ اگر کوئی مقلدیا غیر مقلد رہے تو وہ نہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوگا نہ عمل بالحدیث سے۔ بخلاف اُس کے کہ اگر کوئی مسلمان مخالفوں کے دام میں آجائے تو اسلام ہی سے خارج ہوجائے گا۔ اس لئے علماء طرفین کی جانب سے اس کی روک تھام ضروری ہے‘‘۔ (حقیقۃالفقہ، طبع جدید:۲؍۵۶۲)

حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ اپنے دور میں اسلام کے خلاف دشمنان اسلام کی جانب سے ہونے والی منصوبہ بند سازشوں کے لئے فکرمند ہیں، جبکہ موجودہ احوال ’’گھر واپسی‘‘ وغیرہ جیسی مہم اور خود مسلمانوں کے اندر فکری و تہذیبی ارتداداور بعض عملی ارتداد کے ناخوشگوار واقعات امت مسلمہ کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام کی دردمندانہ تحریر ’’المؤمن ینظر بنور اللّٰہ‘‘ کے مصداق فکری بصیرت کی غماز ہے، جو اس دور کے تمام مکاتب فکر کے علماء کو پوری دردمندی کے ساتھ اختلاف کے باوجود اتحاد اور اس کے استحکام کے لئے غور و فکر کی دعوت دے رہی ہے ۔ حضرت شیخ الاسلام کی یہ تحریر سرمۂ بصیرت بنانے کے قابل ہے۔