مقدس پیشے سے عشق کی ضرورت، اُردو یونیورسٹی میں پروفیسر خالد محمود کا یومِ اساتذہ لکچر
حیدرآباد، 5؍ستمبر (پریس نوٹ) طالب علم پر استاد کی تربیت کی تلقین اور ہدایت کے مقابلے کہیں زیادہ اثر مرتب ہوتا ہے۔طالب علم استاد کو نہ صرف سنتے ہیں بلکہ دیکھتے بھی ہیں۔ قول و فعل میں تضاد استاد کی شبیہ کو مجروح کردیتا ہے۔ پیدائش سے موت تک تعلیم کا عمل جاری رہتا ہے۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت محمدؐ نے جنگ بدر میں ان لوگوں کو آزاد کردیا جنہوں نے مسلمانوں کو تعلیم دی۔ پروفیسر خالد محمود، سابق صدر شعبۂ اُردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں آج یوم اساتذہ پر لکچر بعنوان ’’تعلیم، مقصد تعلیم، معلم اور معلم کی ذمہ داریاں‘‘ دیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ یومِ اساتذہ کا اہتمام اسکول برائے تعلیم و تربیت نے کیا تھا۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ پروفیسر شکیل احمد، پرو وائس چانسلر اور ڈاکٹر ایم اے سکندر، رجسٹرار بالترتیب مہمانِ خصوصی و مہمانِ اعزازی تھے۔ مہمان مقرر نے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام علوم کا منبع و مبدا اللہ رب العزت کی ذاتِ باکمال ہے اسی لیے قرآن کی پہلی وحی میں بھی اقرا کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم میں تلقین اور ہدایت کے ساتھ تربیت بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے صدارتی تقریر میں کہا کہ یہ ادارہ آزادی اور آزادی فکر کے فروغ کے لیے وجود میں آیا ہے۔ انسان کا وجود علم سے ہے۔ انسان کاتشخص علم ہی ہے۔ اساتذہ اور مستقبل کے اساتذہ پیشۂ تدریس کے ساتھ عدل کریں گے تبھی ایک بہتر سماج کی تشکیل ہوسکے گی۔ پروفیسر شکیل احمد نے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ایک عظیم فلسفی اور دانشور ہیں لیکن میں ان کا سب سے زیادہ احترام اس لیے کرتا ہوں کہ وہ ایک بہت اچھے استاد ہیں۔ سماج میں استاد کا نہایت اہم کردار ہے۔ ڈاکٹر ایم اے سکندر نے کہاکہ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے آندھرا یونیورسٹی میں بحیثیت وائس چانسلر ملک و بیرونِ ملک سے بہترین اساتذہ کا تقرر کیا۔ انہوں نے اسے مشرق کا آکسفورڈ بنادیا تھا۔ یونیورسٹی کا مقصد صرف روزگار مہیا کرنا نہیں بلکہ انسانیت سازی کرنا ہے۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے اقوال کا حوالہ بھی دیا۔ پروفیسر فاطمہ بیگم نے ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن کی حیات و خدمات کا احاطہ کیا۔ پروفیسر ایچ خدیجہ بیگم نے خیر مقدم کیا اور پروفیسر خالد محمود کا تعارف پیش کیا۔